نوشکی سانحہ کے بعد بے بسی کا سامنا غلامی کی تاریخ کا تحفہ تھا،ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے نوشکی سانحہ کے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نوشکی میں سینکڑوں انسانوں کے جھلسنے کا سبب ایک المناک حادثہ تھا، مگر اس کے بعد جس کربناک بےبسی کا سامنا ہوا، وہ کسی قدرتی آفت کا نہیں بلکہ غلامی کی تاریخ کا تحفہ تھا۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں، جہاں پورے صوبے میں محض ایک برن کیئر یونٹ، وہ بھی کوئٹہ میں موجود ہے، وہاں جھلسے ہوئے وجودوں کو علاج کی آس لگانا کسی معجزے سے کم نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ تک پہنچنے کے لیے زخمیوں کو نہ صرف دو گھنٹے کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے، بلکہ اس سفر میں کم از کم پانچ ایف سی چیک پوسٹوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ ہر چیک پوسٹ پر سوالات کی ایک قطار ہوتی ہے “کہاں سے آ رہے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟ جیسے زندگی کی ڈور چند الفاظ پر اٹکی ہو۔ اور جب شہر میں ایمبولینسوں کی تعداد بیس سے بھی کم ہو، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر لمحہ کس قدر قیمتی اور بھاری ہوتا ہے۔

انہوںنے کہا کہ کوئٹہ پہنچ کر بھی، برن یونٹ میں صرف تیس افراد کو داخل کیا جا سکتا ہے۔ سہولیات اتنی محدود ہیں کہ اگر جسم کا بیس فیصد سے زائد حصہ جھلس چکا ہو تو بچنے کی امید بجھ جاتی ہے۔ ہر سال گیس کی قلت اور تیل کے غیرمحفوظ کاروبار درجنوں، بلکہ سینکڑوں جانیں نگل لیتے ہیں، مگر حکمرانوں کی بےحسی پتھروں سے بھی سخت ہے۔ آج تک کسی نے یہ ضروری نہ جانا کہ ہر ضلعے میں برن کیئر یونٹ قائم کیے جائیں۔

مگر یہاں مسئلہ محض سہولیات کی کمی کا نہیں؛ مسئلہ اس غلامی کا ہے جس نے بلوچ کی زندگی کو ایک نہ ختم ہونے والا عذاب بنا دیا ہے۔ یہاں نہ قدرتی آفات کا مداوا ہوتا ہے، نہ مصنوعی سانحات کا۔ اور جو عوام خود زندہ رہنے کے لیے جبری گمشدگیوں، ٹارگٹ کلنگز، دھمکیوں، فوجی آپریشنوں، علاقائی ڈیتھ اسکواڈز، اور بھوک جیسے قہر سے نبرد آزما ہوں، وہ کیسے اور کہاں آواز بلند کریں؟

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ یہاں ہر سانحہ کسی نئے زخم کی طرح بلوچ وجود پر رقم ہوتا ہے، ہر دن زندگی کو مزید بوجھل اور خوابوں کو مزید سیاہ بناتا ہے۔ اور جب کوئی، انہی میں سے کوئی، اس اندھیرے کے خلاف روشنی کی ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کا انجام زندان کی کال کوٹھری ہوتی ہے۔ قید و بند ان کی قسمت ٹھہرتی ہے، اور بغاوت کی سزا صرف انہی کو نہیں، ان کے اہل خانہ کو بھی بھگتنی پڑتی ہے اغوا، دھمکیاں، اور بےنام قبریں۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ کیا تم ایسے بلوچ سے توقع رکھتے ہو کہ وہ خاموش رہے؟ جس کی زندگی ایک طویل، تلخ خواب کے سوا کچھ بھی نہیں؟

Share This Article