بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ کو رہا کر دیا گیا ہے۔
بی وائی سی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ یہ جیت ہر اس آواز کی ہے جس نے ان کی غیر قانونی نظر بندی کے خلاف مزاحمت کی اور پاکستان کے ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔
مزید کہا گیا کہ جدوجہد جاری ہے۔
سمی دین ، ڈاکٹر ماہ رنگ ، بیبو بلوچ ، بیبرگ بلوچ ، صبغت الہ شاہ جی اور بی وائی سی کے دیگر کارکنان کی ماورائے آئین گرفتاری ، جبری گمشدگیوں کے خلاف بی وائی سی کی کال پر پورا بلوچستان عید کے روز سراپا احتجاج رہی اور گرفتار رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
جبکہ گرفتار بلوچ خواتین کی رہائی کے لئے اختر مینگل کی سربراہی میں بی این پی نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ شروع جسے مستونگ میں لک پاس کے مقام پر حکومت کی جانب سے رکاوٹ ڈال کر روکا گیا اور لانگ مارچ مطاہرین نے وہیں پر دھرنا دیدیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
واضع رہے کہ سمی دین بلوچ کو 24 مارچ کوپاکستان کے صوبہ سندھ کے مزکزی شہر کراچی میں بی وائی سی کے ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب اور وومن ڈیموکریٹک فرنٹ سندھ کی کراچی یونٹ سمیت متعدد افراد کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
سمی بلوچ و دیگر کوئٹہ میںنہتے مظاہرین پر ریاستی کریک ڈائون ،ڈاکٹر ماہ رنگ و ساتھیوں کی ماورائے آئین گرفتاری ، فائرنگ و ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کیخلاف کراچی پریس کلب کے سامنے کر رہے تھے۔
اگلے دن تمام گرفتار افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سب کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا لیکن سمی کو احاطہ عدالت میں تھری ایم پی او کے تحت دوبارہ گرفتار کرلیا گیاتھا۔
اس سلسلے میں سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا ہے۔
سندھ حکومت کی ترجمان سعدیہ جاوید کا کہنا تھا کہ ’شہر میں تھریٹ الرٹ تھا اور کمشنر نے دفعہ 144 نافذ کیا تھا جس کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اس لیے یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
عید کے روز سمی بلوچ کی والدہ و بہن مہلب دین بلوچ اور وکلا و سول سوسائٹی کے ارکان نے کراچی پریس کلب کے سامنے پریس کانفرنس کی اور سمی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔