کورونا وبا کا خاتمہ اب قریب ہے،عالمی ادارہ صحت

0
280

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا کو کورونا وبا کے خاتمے کے لیے ‘اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔’ ادارے نے ویکسین لگانے اور جانچ کا عمل جاری رکھنے کی بھی سفارش کی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اڈہانوم گیبریاسیس نے 14 ستمبر بدھ کے روز کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ اب نظر آنے لگا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے ایک ورچوئل پریس کانفرنس کے دوران کہا، ”ہم ابھی تو وہاں نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن اس کا خاتمہ نظر آرہا ہے۔ ہم اس وبائی مرض کو ختم کرنے کی اس سے بہتر پوزیشن میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ قبل اس کے کہ اس وبائی مرض کی شدت میں ایک بار پھر اضافہ ہو جائے، دنیا کو ”اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔”

ان کا کہنا تھا، ”اگر ہم ابھی اس موقع کو ضائع کر دیتے ہیں، تو پھر ہم کورونا کی مزید اقسام کے خطرات کو مول لیں گے، جس سے زیادہ اموات، زیادہ خلل اور زیادہ غیر یقینی صورتحال کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”

اس مقصد کے لیے عالمی ادارہ صحت نے مختصراً چھ نکاتی ایک پالیسی شائع کی ہے، جس کا مقصد وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنا ہے۔ اس میں تنظیم نے اس بات کی سفارش کی کہ تمام ممالک میں صحت کے کارکنوں اور عمر رسیدہ افراد سمیت خطرے میں پڑنے والے تمام گروپوں کے سو فیصد لوگوں کو ویکسین لگانا ضروری ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے تمام ممالک پر اس بات کے لیے بھی زور دیا ہے کہ وہ وائرس کی جانچ اور اس کی رپورٹ کو ترتیب دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھیں۔ پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں انفیکشن کی کسی بھی ممکنہ لہر کے پیش نظر پہلے ہی سے طبی آلات کی مناسب فراہمی کو برقرار رکھیں۔

ادارے نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ کہ ویکسین لگانے کے ساتھ ہی ٹیسٹنگ کی مہم کو تیز کر کے یورپ میں منکی پاکس کی وبا کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔

چار ستمبر اواخر ہفتہ تک کورونا وائرس کے جو کیسز رپورٹ ہوئے وہ پہلی بار مارچ سن 2020 کے بعد سب سے کم تھے، یعنی پچھلے ہفتے کے مقابلے میں 12 فیصد سے بھی کم۔

کورونا کے متاثرین کی اتنی کم تعداد ہونے کے باوجود ڈبلیو ایچ او نے دنیا پر زور دیا کہ وہ منکی پاکس اور کووڈ انیس سے متعلق اپنے حفاظتی اقدامات میں ذرا سی بھی لا پرواہی کرنے سے باز رہے۔ ادارے نے متنبہ کیا کہ وائرس اب بھی ”گردش” میں ہے اور زیادہ تر کیسز کو رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here