امریکی سینیٹ کمیٹی نے تائیوان کو اربوں ڈالر کے امریکی فوجی امداد فراہم کرنے نیز تعلقات کو مزید رسمی بنانے کی سمت بدھ کے روز پہلا قدم بڑھا دیا۔ اس نئے اقدام سے پہلے سے ہی ناراض چین کا مزید مشتعل ہونا یقینی ہے۔
امریکی ایوان بالا، سینیٹ، کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے بدھ کے روز ‘تائیوان پالیسی قانون’ کو منظوری دے دی۔ حزب اقتدار اور اپوزیشن دونوں جماعتوں نے اس کی حمایت کی۔ اسے تائیوان کے ساتھ امریکی تعلقات کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے 1979کے بعد اب تک کا سب سے اہم فیصلہ قرار دیا جارہا ہے، جب امریکہ نے تائیوان کو تسلیم کرنے کے بجائے بیجنگ کی’ون چائنا پالیسی’ کی حمایت کی تھی۔
یوں تو امریکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تائیوان کو ہتھیار فروخت کررہا ہے تاہم امریکی سینیٹ میں منظور کردہ نئے قانون کے نتیجے میں واشنگٹن کی جانب سے تائی پے کی فوجی امداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور امریکہ اگلے چار برسوں میں اسے مزید 4.5 ارب ڈالر کے دفاعی سازو سامان فراہم کرے گا۔
نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر چین جزیرہ تائیوان پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
امریکی سینیٹ نے اس نئے قانون کو ایسے وقت منظوری دی ہے جب امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائی پے کے دورے پر چین نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زبردست فوجی مشقیں شروع کردی تھیں۔ اس کے علاوہ یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ چین بھی تائیوان کے خلاف اسی طرح کا قدم اٹھا سکتا ہے۔
اس ‘تائیوان پالیسی قانون’ کو نافذ العمل ہونے سے پہلے سینیٹ اور ایوان زیریں (کانگریس) سے مکمل منظوری حاصل کرنی ہوگئی اس کے بعد صدر جو بائیڈن اس کی توثیق کریں گے۔ حالانکہ اس بل کی جس انداز میں حمایت کی گئی ہے اس سے توقع ہے اس کی منظوری میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
وائٹ ہاوس نے تاہم فی الحال یہ بتانے سے منع کر دیا کہ آیا صدر جو بائیڈن اس پر دستخط کریں گے یا نہیں۔
وائٹ ہاوس کی پریس سکریٹری کیرین ژاں پیئر نے صرف اتنا کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس قانون کے حوالے سے قانون سازوں کے رابطے میں ہے۔
انہوں نے کہا،”ہم تائیوان کے حق میں دونوں جماعتوں کی جانب سے اس مضبوط حمایت کا خیر مقدم کریتے ہیں اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔”
نئے قانون سے کئی اصطلاحات بھی بدل جائیں گے جنہیں امریکہ اب تک چین کی ناراضی سے بچنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
تائیوان میں عملاً سفارت خانے کے طور پر کا کرنے والے ‘تائی پے اکنامک اینڈ کلچرل ریپرزینٹیٹیو آفس’ کو ‘تائیوان ریپرزینٹیٹیو آفس’ کہا جائے گا۔ اور امریکی حکومت کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ تائیوان کے ساتھ بھی اسی طرح کا رابطہ رکھے جیسا کہ دنیا کی کسی دیگر حکومت کے ساتھ رکھتا ہے۔
تائی پے میں اعلی امریکی سفارت کار، جسے ابھی امریکن انسٹی ٹیوٹ کا ڈائریکٹر کہا جاتا ہے، کو مذکورہ دفتر کا ”نمائندہ” کہا جائے گا اور ان کی تقرری کے لیے، کسی امریکی سفیر کی طرح ہی، سینیٹ کی توثیق ضروری ہوگی۔
اس قانون میں تائیوان کو ایک ”اہم غیر نیٹو اتحادی” قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون میں سب سے اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ امریکہ چین کی جانب سے جارحیت کو روکنے کے لیے صرف ”دفاعی” ہتھیارو ں کے بجائے ”ضروری ہتھیار” فراہم کرے گا۔ اس قانون میں تائیوان کو ساڑھے چار ارب ڈالر کی مالی امداد کے علاوہ امریکی ہتھیار خریدنے کے لیے دو ارب ڈالر قرض دینے کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے اس سال کے اوائل میں کہا تھا کہ اگر تائیوان پر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ براہ راست مدد کرے گا۔
تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے امریکی سینیٹ کے فیصلے پر امریکہ کے تئیں ”انتہائی ممنونیت” کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے نے تائیوان کے لیے امریکہ کی باہمی دوستی اور تعاون کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔
امریکی سینیٹ کے فیصلے سے بیجنگ کا ناراض اور مشتعل ہونا یقینی ہے کیونکہ وہ تائیوان کو اپنی سرزمین کا حصہ قرار دیتا ہے اور اسے ضم کرنے کے اپنے عزائم کا بارہا اعلان کرچکا ہے۔