کسی بھی جتھے کو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،سرفراز بگٹی

0
62

بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان کی امن وامان کی صورتحال پر مجموعی بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جتھے کو ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ خضدارمیں مولانا محمد صدیق پر حملہ کرنے والوں کو پولیس او ر سی ٹی ڈی نے گرفتار کرلیا ہے ،اسلم عمرانی کے قتل میں ملوث تین سے چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ان کے خلاف بھی کاروائی کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میںحکومتی رٹ کم ہونے کی وجہ سے جرائم ہورہے ہیں مگر اس بڑا چیلنج نہیں سمجھتا پولیس اور لیویز کی استعداد کار کو بڑھا کر بد امنی اور جرائم کے خلاف کاروائی کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ آج آئی جی پولیس کو حکم دے رہاہوں کہ پولیس کو غیر سیاسی بنایا جائے 6ماہ تک کوئی بھی رکن اسمبلی یا سیاستدان پولیس کے کام میں مداخلت نہیں کریگا لیکن ارکان اسمبلی ، شہریوں کی عزت مجروح کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی آئی جی پولیس ایماندار ایس پی اور ایس ایچ او تعینات کریں پولیس چوری ،ڈکیتی، قتل و غارت گیری جیسے جرائم کے خلاف آپریشن کرے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان کے خلاف را کی جانب سے انٹیلی جنس وار شروع کی گئی ہے بلوچستان میں سیکورٹی فورسز، بلوچوں کو مخبر کے نام پر ، پنجابیوں کو شناخت کرکے قتل اور اغواء کیاجارہا ہے ، مائن اونرز سے بھتہ وصول کیا جاتا ہے تخریب کار جنہیں پورا پاکستا ن ناراض بلوچ کہتا ہے نے 4ہزار معصوم سولین شہریوں کو قتل کیا ہے اس معاملے پر اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے ان کیمرہ بات چیت کریں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں ،پاکستانی فوج، حکومت اور عوام کے درمیان خلفشار پیداکرنے کی سازش کی جارہی ہے پاکستان آج اپنی فوج کی وجہ سے بچا ہوا ہے آج بلوچستان کے28ہزار افراد فوج میں تعینات ہیں کیا یہ فوج بلوچوں کی فوج نہیں ہے ؟

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے قوم اور اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی یلغار کی جارہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کچھ لوگوں کو شرپسندوں اور تخریبکاروں کی آواز بنا کر سڑکوں پربھیجا جارہا ہے وہ پولیس اور حکومت کو اشتعال دلاتے ہیں کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے سریاب روڈ پر دھرنے کے دوران سول انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کئے لیکن ان لوگوں کے ریڈ زون پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ریڈزون سے حکومتی مشینری چلتی ہے حکومت طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی لیکن ایک جتھاحکومتی نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر ے اور وہ کہے کہ وہ پرامن ہیں تو یہ ممکن نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کا حق آئین کے تحت سب کو ہے اور اس احتجاج کے مقام اور نظام کو سنبھالنا ہماری ذمہ داری ہے آج حکومت ہاکی چوک کو احتجاج کے لئے مختص کر رہی ہے جس نے احتجاج کرنا ہے و ہ وہاں آکر کرے ۔

انہوں نے کہا کہ 28جولائی کو ایک بار پھر بلوچ مچی کرنی ہے تو اس موسم میںکوئٹہ سب سے بہتر مقام ہے لیکن گوادر کو اس لئے چنا گیا ہے کہ کیونکہ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے اب انہیں گوادر کی یاد ستانے لگ گئی ہے ۔

کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ بی ایل اے خود اس اجتماع میں دھماکہ کروانا چاہتی ہے کیا ماضی میں ارشاد مستوئی ، سبین محمود کو بی ایل اے نے قتل نہیں کیا ؟ کیا بی ایل اے نے ماما قدیر کو قتل کرنے کا منصوبہ نہیں بنا رکھا تھا ؟ ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بی وائی سی کے احتجاج کو سیکورٹی فراہم کی جائے ہم نے بارہابلوچ یکجہتی کمیٹی جو کہ کسی بھی فورم پر رجسٹرڈ نہیں ہے سے مذاکرات کئے کہ وہ گوادر کے بجائے تربت میں جلسہ کریں اگر بضد ہیں تو حکومت بھی اپنا ایکشن لے گی کسی بھی جتھے کو قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔

کٹھ پتلی وزیراعلیٰ نے کہا کہ جس کا دل کرتا ہے 20لوگ اکھٹے کر کے سڑکیں بند کردیتا ہے آج میں اعلان کرتاہوں کہ کسی کو بھی قومی شاہراہیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی پر امن احتجاج شہریوں کا حق ہے مگر اس کامقام حکومت طے کریگی ۔

انہوں نے کہا کہ عوام ملک کے خلاف سازش کو سمجھیں بنوں میں بھی 10جوان جاں بحق ہوئے او ر اس کے بعد سازش کے تحت حالات خراب کئے گئے میں محمود خان اچکزئی کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے بنوں واقعہ کے حقائق کو تسلیم کیا فوج نے فائرنگ نہیں کی ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے خلاف بہت بڑی ساز ش ہورہی ہے بلوچستان پر امن ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا ہمیں سول سوسائٹی، عدلیہ، میڈیا کے ساتھ کی ضرورت ہے کیا یہ جنگ صرف سرمچاروں اور فوج کی ہے یا پورے معاشرے کی ہم نے ملکر یہ جنگ لڑنی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ریاست کو کمزور ہونے نہیں دے گی بلوچ آزاد ہیں ،صدر مملکت بلوچ ہیں آئین میں ہمیں تمام حقوق حاصل ہیں 18ویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو مزید اختیارات بھی ملے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت عام بلوچستانی اور نوجوانوں کو گلے لگائے گی ہمارے نوجوان بیڈ گورننس کی وجہ سے ریاست سے دور ہیں ہم انہیں تعلیم، صحت، ہنر ، روزگار دیں گے 200ارب روپے کا بجٹ ان پر لگائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جس نے تشدد یا پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ریاست کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنی رٹ قائم کرے ۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں مذاکرات کریں حکومت کے ساتھ بیٹھ کر احتجاج کا مقام طے کریں جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں ان سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے یہ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بندوق اٹھانا سیاسی نہیں بلکہ پارلیمان میں آکر بات کرنا سیاسی مسئلہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ریاست کی رٹ کو قائم کریں گے بلوچستان کے لوگوں کو ترقی ، سکول، اسکالرشپ ،صحت کی سہولیات چاہئیں جو ان دیں گے ۔

قبل ازیں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف میر یونس عزیز زہری نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام کو نشانہ بنایا جارہا ہے پارٹی رہنماء اسلم عمرانی کو پولیس اور سی ٹی ڈی کے سامنے قتل کیا گیاآج بھی قاتلوں کے مورچے قائم ہیں واقعہ پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ڈپٹی کمشنر نے پولیس کو کاروائی کرنے کے لئے جانے سے روک رکھا ہے بتایا جائے کہ ڈپٹی کمشنر کو کس نے ہدایت دی ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here