بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ پنجگور کے حالات و واقعات اور وہاں پر ڈیتھ سکواڈ کا سرپھرا ہونا انتہائی خطرناک عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ پنجگور میں آئے روز نئے واقعات جنم لے رہے ہیں اور ان واقعات و حالات کی سرپرستی کون کر رہا ہے یہ سوالیہ نشان ہے؟ پنجگور میں اس طرح کے ناقص انتظامات اور ڈیتھ اسکواڈ کا یوں اپنی من مانی کرنا اور اس پر انتظامیہ کی خاموشی یہ سب اپنے آپ میں کئی سوال لئے ہوئے ہیں۔ ہم اس بات کو سمجھنے سے بہت قاصر ہیں کہ ڈیتھ اسکواڈ کی سرپرستی کرنے والے اور ان کو یوں سر پھرا کرنے میں کون سے اشخاص شامل ہیں پر یہ بات ضرور یاد کی جائے اس طرح کے واقعات کا پروان چڑھنا سخت خطرات کی علامت ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کونسے واقعے کا ذکر کریں کیونکہ پنجگور میں ہر صبح کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی ایک واقعے کی آمد کرتا ہے۔ ان واقعات کی فہرست میں سب سے زیادہ تازہ واقعہ پنجگور کے علاقے پروم کا ہے۔ واقعے کی روداد کچھ یوں بتائی گئی ہے کہ پروم میں دو نا معلوم افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے جلیل سنجرانی اور علاؤالدین کو موت کی آغوش میں سلانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یاد رہے اس واقعے کی تفصیلات میں بھی ڈیتھ اسکواڈ کا نام ہی آ رہا ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ اپنا کردار پوری طرح ادا کر رہی ہے۔ لیکن! یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس ملک کے جاں کے رکھوالے کہاں ہیں؟ یہاں پر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پنجگور کی انتظامیہ کہاں ہے؟ یہاں پر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بلوچستان کے مظلوم عوام کا خون اتنا سستا کیوں ہے؟
ترجمان نے مزید کہا کہ جلیل سنجرانی جو کہ علم و ادب سے روشناس تھے اور جو پنجگور کے لئے ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ آج وہ قیمتی اثاثہ ظالموں کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ جلیل سنجرانی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ جلیل سنجرانی نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اپنے علمی دانست کی سبب کئی خدمات سر انجام دیے۔ جلیل سنجرانی پنجگور کے دل اندوہ حالات کے سبب کافی پریشان رہتے تھے جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا میں بار بار کرتے تھے۔ جلیل سنجرانی نے اپنی فیس بک آئی ڈی میں سے 30۔اگست۔2021 کو ایک پوسٹ کیا تھا جو کچھ یوں تھی۔ پنجگور کو چوروں اور ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خوابِ خرگوش میں سونے والوں میرا بد دعا ہے کہ ایک دن تمہارے اپنے گھر سے کوئی لاش اٹھے پھر پتہ چل جائے گا تم ظالموں کو کہ اپنوں کا غم کیا ہے۔ یہ پوسٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جلیل سنجرانی ہمہ وقت ظلم کے خلاف صدا بلند کرتے رہے ہیں شاید یہی وہ وجہ ہے جو ان کے موت کا سبب بنی۔
ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اطلاعات کے مطابق ضلع پنجگور میں ماہِ اگست میں 21 قتل ہوئے ہیں۔ جن میں ایک 4 سالہ معصوم بچہ قدیر خلیل بھی ہے۔ گزشتہ مہینے میں ایک والد اور اس کے بیٹے کو بھی قتل کیا گیا تھا اور اس طرح کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس واقعے میں لوگوں کا ماننا تھا کہ یہ کوئی ذاتی دشمنی ہو سکتی ہے۔ اور کچھ لوگوں کا کچھ الگ ماننا تھا کچھ کا کچھ اور۔ لیکن! در حقیقت یہ ڈیتھ اسکواڈ کی غنڈہ گردی ہے۔ پورے ضلع کی آبادی 316385 بتائی جا رہی ہے۔ اگر یہ موت کا کھیل یوں ہی جاری و ساری رہا اور یہ ٹرینڈ کی مانند چلتا رہا تو یہ سطح 80 تک پہنچ جائے گی? جس کے سبب پنجگور دنیا کے 10 خطرناک ترین شہروں میں شامل ہوجائے گا جہاں قتل کی شرح کافی اونچی ہوگی۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ہم حکومتِ وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمیداریوں کو بخوبی نبھائیں وگرنہ اس کے نقصانات بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔