فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا

0
304

فرانس نے سنیچر کو ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اس سے قبل اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانویل میکخواں کے بارے میں بیان دیا تھا کہ انھیں دماغی علاج کی ضرورت ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اردوغان نے یہ بیان میکخواں کے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق رویے کے پس منظر میں دیا تھا۔

فرانسیسی صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘صدر اردوغان کا بیان قابل قبول نہیں ہے۔ غصہ و توہین کوئی طریقہ کار نہیں۔‘

نیٹو اتحاد کے رکن ممالک فرانس اور ترکی کے درمیان شام، لیبیا اور ناگورنو قرہباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان سمیت کئی مسائل پر تناو¿ موجود ہے۔

گذشتہ اتوار کو فرانس میں ایک استاد نے طلبہ کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔

اردوغان نے اس معاملے پر ایک خطاب کے دوران کہا کہ ‘میں ایسے رہنما کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگوں سے ایسا برتاو¿ کرتا ہے۔ وہ پہلے دماغی علاج کروائیں۔’

انھوں نے سوال کیا کہ ‘میکخواں نامی اس شخص کو اسلام اور مسلمانوں سے مسئلہ کیا ہے؟’

اردوغان نے مزید کہا کہ ‘میکخواں کو دماغی علاج کی ضرورت ہے۔’ انھوں نے عندیہ دیا کہ انھیں امید نہیں کہ فرانسیسی رہنما سنہ 2022 کے انتخابات میں جیت سکیں گے۔

ایک فرانسیسی حکومتی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور انقرہ میں فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کے مطالبات تشویش ناک ہیں۔

رواں ماہ میکخواں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام پوری دنیا میں ‘بحران کا مذہب’ بن گیا ہے اور ان کی حکومت دسمبر میں مذہب اور ریاست کو الگ کرنے والے 1905 کے قوانین کو مزید مضبوط کرے گی۔

انھوں نے سکولوں اور مساجد کی بیرون ملکوں کی سخت نگرانی کا اعلان کیا ہے۔

بعض مبصرین اس تناو¿ کی وجہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کشیدگی کو قرار دے رہے ہیں۔ ترکی نے میکخواں کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے شامی ملیشیا کے جنگجوو¿ں کو آذربائیجان کی مدد کے لیے ناگورنو گرہباخ بھیج دیا ہے۔ ترکی اس تنازع میں آذربائیجان کی حمایت کرتا ہے۔

اردوغان نے سنیچر کو آذربائیجان میں تجاوزات اور بحران کے پیچھے فرانس کے ہونے کا الزام لگایا ہے۔ فرانس روس اور امریکہ کے ساتھ اس تنظیم میں شامل ہے جس کا کام اس تنازع کو ختم کرنا اور خطے میں امن لانا ہے۔

سیموئل پیٹی نامی ٹیچر نے اپنے طالب علموں کو پیغمبرِ اسلام سے متعلق خاکے دکھائے تھے جس کے بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد فرانس کی حکومت نے پیرس میں اس مسجد کو بند کر نے کا حکم دیا ہے جہاں سے جمعے کو ہلاک کیے جانے والے استاد سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

سیموئل پیٹی کے قتل کے لرزہ خیز واقعے نے فرانس میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتوار کو لاکھوں لوگوں نے آزادیِ اظہار اور ٹیچر کے حق میں اور خلاف ریلیاں نکالیں۔

انسداد دہشت گردی کے حکومتی وکیل ڑان فراسو رچرڈ نے کہا ہے کہ پیٹی کو اس وقت سے دھمکیاں مل رہی تھیں جب انہوں نے آزادی اظہار کے بارے میں اپنی کلاس میں متنازع خاکے دکھائے تھے۔

پیٹی تاریخ اور جغرافیہ کے استاد تھے۔ انھوں نے حالیہ برسوں میں کئی کلاسوں میں اپنے شاگردوں کو یہ خاکے دکھائے اور مسلمان طالب علموں سے وہ یہ ہی کہتے تھے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاکے ان کے لیے ناقابل برداشت یا اشتعال انگیز ہیں تو وہ انھیں نہ دیکھیں اور اپنے نظریں پھیر لیں۔

مسلمانوں کے عقائد کے مطابق پیغمبر اسلام کا کسی قسم کا عکس یا تصویر ممنوع ہے اور اس کو انتہائی قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔

فرانس میں یہ معاملہ طنزیہ جریدے چارلی ایبڈو میں خاکے شائع کیے جانے کے بعد انتہائی سنگین صورت حال اختیار کر گیا تھا۔

ملک میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 2015 میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے میں دو افراد کی سہولت کاری کے الزام میں 14 افراد پر مقدمہ چل رہا ہے۔ اس واقعے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بہت سے فرانسیسی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھیں نسل پرستانہ اور امتیازی رویوں کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کی وجہ ان کا عقیدہ اور مذہب ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو کہ فرانس میں ایک عرصے سے عناد اور کشیدگی کی وجہ بنا ہوا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here