نوکنڈی حملہ واضح قومی پیغام ہے، چینی اسٹریٹیجک غلطی کے بعد، مغرب بلوچستان میں سرمایہ کاری سے اجتناب کرے،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ ( بی ایل ایف)کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین براہ راست بلوچ سرزمین، ساحلی پٹی اور قدرتی وسائل کے استحصالی منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ مل کر ایک سنگین اسٹریٹجک غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ بلوچ قوم یہ طے کرچکا ہے کہ بلوچستان میں قومی آزادی سے قبل کوئی بھی منصوبہ پائیدار یا قابلِ قبول نہیں ہو سکتا، خواہ وہ کسی بھی شکل اور کسی بھی ریاست کی جانب سے ہو ۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ طاقت کے زور پر تھوپے گئے منصوبے نہ صرف ناکام ہوتے ہیں بلکہ طویل المدت عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔

پاکستان گزشتہ بیس سالوں سے بلوچستان میں منظم نسل کشی اور جنگی جرائم میں ملوث ہے، پاکستان کے ساتھ اس حد تک قربت اختیار کرکے چین خود کو اُن پالیسیوں اور اقدامات کا حصہ بناتا جا رہا ہے جو انصاف، وقار اور حقِ خود ارادیت جیسے اصولوں سے متصادم ہیں، وہی اصول جن کے لیے خود چینی عوام نے اپنی تاریخ میں طویل اور کٹھن جدوجہد کی ہے۔ اس پس منظر میں چین کا بلوچستان کے بارے میں موجودہ پالیسی چینی قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر بنتا جارہا ہے۔

ہم واضح کرچکے ہیں کہ بلوچ عوام چین کو براہِ راست دشمن نہیں سمجھتے۔ تاہم پاکستان کے ساتھ مسلسل اور غیر مشروط تعاون لازمی طور پر چین کو اُن اقدامات اور نتائج سے جوڑتا ہے جو پاکستان نے بلوچستان میں روا رکھے ہوئے ہیں۔ ان اقدامات میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی سزا، مقامی آبادیوں کی بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی اور پورے سماج کو تشدد اور خوف کے ذریعے خاموش کرانے کی پالیسی شامل ہیں۔

نوکنڈی، چاغی میں ہونے والے حالیہ حملہ، جس سے چینی اور دیگر غیر ملکی کمپنیاں متاثر ہوئیں، انہیں اس حملے کو محض پاکستان پر حملہ نہیں بلکہ اس کے بیرونی شراکت داروں کے خلاف بلوچ قومی رد عمل کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یہ حملہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بلوچستان میں کوئی بھی سرمایہ کاری اور سرمایہ کاری کے منصوبے بلوچ قومی تحریکِ آزادی سے جڑے ہیں۔ قابض پاکستان کے زیر تابع تمام منصوبے بلوچ قومی شہہ رگ پر چھری رکھنے کے مترادف ہیں جن پر مزاحمت عین فطری ہے۔

ہم چینی قیادت پر زور دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کے حوالے سے، بالخصوص بلوچستان کے تناظر میں، اپنی پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرے اور مقامی (انڈیجینس) بلوچ آبادی کے سیاسی، معاشی اور قومی مطالبات کو نظرانداز کرنے کے بجائے انہیں مرکزی حیثیت دے۔

یہی پیغام یورپ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے لیے بھی ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ عوام کی آزادی کی جائز جدوجہد کو تسلیم کرے اور اس کی حمایت میں تعمیری اور ذمہ دار کردار ادا کرے۔ مستقبل کا آزاد بلوچستان اُن تمام اقوام کے لیے ایک کھلا، ذمہ دار اور باوقار شراکت دار ہوگا جو آزادی، انصاف اور انسانی وقار کے بنیادی اصولوں کا احترام کرتی ہیں۔

Share This Article