کراچی : صحافی علیفیہ سحیل کوریج کے فوراً بعد لاپتہ، پولیس اسٹیشن میں بلا جواز حراست

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

صحافی علیفیہ سحیل جمعہ کے روز کراچی پریس کلب میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کی کوریج کے فوراً بعد لاپتہ ہوگئیں۔

عینی شاہدین کے مطابق علیفیہ سحیل نے شام 4 سے 5 بجے کے درمیان احتجاج کی کوریج کی، جبکہ 5 بج کر 25 منٹ پر ان کا آخری پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں "گرفتار کیا جا رہا ہے”۔ اس کے بعد ان کا موبائل فون بند ہوگیا اور وہ رابطے میں نہیں رہیں۔

کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا ہے کہ علیفیہ سحیل کو ویمن پولیس اسٹیشن صدر منتقل کیا گیا ہے، جہاں وہ پولیس کی حراست میں ہیں، تاہم نہ کوئی ایف آئی آر درج ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی تحریری شکایت موجود ہے۔

ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ انہیں "اوپر سے احکامات” ملے ہیں اور رہائی بھی انہیں ہی کے حکم پر دی جائے گی۔

علیفیہ سحیل کئی برسوں سے سول سوسائٹی کے احتجاجات، جبری گمشدگیوں اور کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کی سرگرمیوں کی مسلسل کوریج کرتی رہی ہیں۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے ان کی گرفتاری اور مبینہ گمشدگی کو آزادیٔ صحافت پر سنگین حملہ قرار دیا ہے اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ صحافی الفیہ سہیل، جو آج شام 4 سے 5 بجے کے درمیان 27ویں ترمیم کے خلاف احتجاج کی کوریج کے لیے کراچی پریس کلب میں موجود تھیں، انہیں شام 5 بج کر 25 منٹ پر موصول ہونے والے آخری پیغام کے مطابق کچھ دیر بعد گرفتار کرلیا گیا، جس کے بعد ان کا نمبر بند کردیا گیا ہے۔

جبران ناصر کے مطابق خاتون صحافی کی گرفتاری کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الفیہ نے مسلسل سول سوسائٹی کے احتجاج، خاص طور پر لاپتہ افراد کے کیسز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں کراچی میں ہونے والے احتجاجوں کو کور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی مذمت تب کرتی ہے جب یہ ان کے بیانیے کے مطابق ہو، مگر جب صحافی سچ سامنے لاتے ہیں تو انہیں گرفتار اور لاپتہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتی۔

جبران ناصر نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خاتون صحافی کو فوری طور پر انھیں منظرعام پر لاکر رہا کریں۔

Share This Article