طالبان حکام نے بی بی سی پشتو کو بتایا ہے کہ ان کا وفد پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ترکی کے شہر استنبول پہنچ گیا ہے۔
قطر اور ترکی کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات کا تیسرا دور آج سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
طالبان حکومت کے ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ وفد میں طالبان حکومت کے انٹیلی جنس چیف عبدالحق واثق، نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب، دوحہ میں طالبان حکومت کے سفیر سہیل شاہین کے علاوہ انس حقانی، عبدالقہار بلخی اور دیگر شامل ہیں۔
تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا پاکستانی وفد مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے استنبول پہنچ چکا ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے استنبول میں ہی ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے اختتام پر پاکستان اور افغان طالبان میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔
استنبول مذاکرات کے بعد ترکی کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے قواعد و ضوابط 6 نومبر سے استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیے جائیں گے۔
فریقین نے جنگ بندی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے نگرانی اور تصدیق کا ایک مشترکہ نظام تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا ہے جو کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ دار فریق پر جرمانہ عائد کرنے کا اختیار رکھے گا۔
مذاکرات کے بعد پاکستان کے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ استنبول مذاکرات میں طے پایا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قیام امن اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے جبکہ خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائد ہو گی۔
جنگ بندی پر عملدرآمد کی خلاف ورزی پر مشترکہ اعلامیے میں جس جرمانے کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’دوست ممالک نے ضمانت دی ہے۔۔۔ یہ (سزا) مشترکہ طور پر طے کیا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ویریفیکیشن کا سسٹم شامل کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مشترکہ مانیٹرنگ اور ویریفیکیشن کے ذریعے یقینی بنایا جائے گا کہ ’خلاف ورزی کرنے والے فریق پر نہ صرف سزا عائد ہو بلکہ اسے شدت پسند گروہوں کے خلاف واضح اور موثر کارروائی عمل میں لانا ہو گی۔‘
خیال رہے کہ رواں ماہ پاکستان اور افغانستان کے مابین شدید سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے عارضی طور جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور پھر مذاکرات کے پہلا دور قطر میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جنگ بندی توسیع اور دیر پا امن کے قیام کے لیے دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔