صوالک – تحریر:دل مرادبلوچ

0
586

غربت،لاچارگی،بے بسی،دھتکار کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہوتو صوالک کے سوا شائد ہی کوئی اور ہو۔پورا نام صوالی ہے لیکن غربت اور لاچارگی نے کہاں صوالی رہنے دیا۔۔۔
”صوالک” بن کر رہ گیا۔

گریشہ کوئی بڑا علاقہ تومگر اتنا چھوٹا بھی نہیں، لگ بھگ ڈیڑھ سوچھوٹے بڑے گاؤں پر مشتمل علاقہ ہے ہر گاؤں میں پچاس سے لے کر سو،دو سو گھر ہوتے ہی ہیں لیکن ان ہری بھر ی بستیوں سے الگ تھلگ صوالک کا گاؤں صرف اکیلے اپنے گھر پر مشتمل تھا،صوالک قبائلی حوالے سے مضبوط قبیلے سے تعلق رکھتاہے اور قبائلی نظام میں یہ قبیلہ اپنی حب نسب پر نازان بھی ہے مگر یہ فخر صوالک کے حصے میں نہیں آیا،والد کا نام خیر محمد تھا شائد شناختی کارڈ میں یہی لکھا ہولیکن جب ہم نے ہوش سنبھالا تو محض ”خیرو“ہی بولااور پکارا جاتا،غربت ورثے میں ملا تھا لیکن خیروہمت کا دھنی تھا سو قسمت بدلنے چلا،زمین رہن رکھ کر زرعی ترقیاتی بینک سے لاکھوں روپئے لئے کہ ٹیوب ویل لگاکر زمین آباد کروں گا مگر ناتجربہ کاری سے زراعت نہ چل سکا اور لاکھوں روپئے ڈوب گئے،زرعی بینک چونکہ سرکاری بینک ہے،یارلوگ اس بینک کے لاکھوں کروڑوں روپے ہڑپ کرلیتے ہیں مگر خیرو کے لئے لاکھوں ہضم کرنابھی مشکل تھااس پہ یہ ستم مستزادکہ ”خیرخواہ“ لوگوں نے ڈرایا کہ بینک کے قرضے نہیں لوٹائے تو قید و بند سے نہیں بچ سکو گے اور پتہ نہیں بینک اورکیاکیا کرے گاتمھارے ساتھ۔

سو بچاراڈرگیا یوں خیرو نے اپنے وسیع رقبہ زمین اونے پونے داموں بیچ کر بینک کے قرض لوٹا دیئے۔ میں شرطیہ کہہ سکتاہوں کہ خیرمحمد عرف خیرو بلوچستان کا واحد آدمی ہے جس نے زرعی بینک کے قرضے لوٹانے کے لئے اپنا زمین بیچ دی ہے۔

قصہ مختصر

سینکڑوں ایکڑ رقبے کے مالک خیرو کے لئے بمشکل چند ایکڑ بچ گئے،فرزند بھی چار پانچ تھے سو باقی ماندہ چند ایکڑ بنجر زمین مزید ٹکڑوں میں بٹ گیا اور ایک آدھ ایکڑ صوالک کے حصے میں آیالیکن اس سے کوئی آمدنی کا تصور ہی مشکل ہے البتہ ایک انگورکادرخت تھا،جب بارشیں ہوتی توانگور خوب ثمر دیتااور صوالک کا ایک کٹارہ بائی سائیکل پریہی انگور بیچتا،اس کے علاوہ وہ کیاکام کرتے تھے،میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

غربت میں دھنسی اور لوگوں کی نظروں سے گرا صوالک جیسے الگ کسی جزیرے کا باشندہ ہو،کوئی اپنا یا غیر کب اورکس زمانے میں اس جزیرے کا رخ کرچکا ہے اس کے آثار بمشکل ملے،گھر کے نام پر ایک بوسیدہ کچا کمرہ اور ایک بوسیدہ جھونپڑی تھا۔

میں قریب ہی سکول ٹیچر تھا مجھے ان سے نجانے کیسی انسیت تھی، مہینے میں ایک آدھ با ر صوالک کے ہاں ضرور چلا جاتا،ان کی حالت مجھ سے دیکھا نہیں جاتاہے لیکن حیرت انگیز طورپر میں نے صوالک کو کبھی پریشان نہیں دیکھا۔

غریب کے بچے مزید غریب ہوتے ہیں۔
سوصوالک کے چندمیلے کچیلے ہروقت بچے دنیا و مافیہاسے بے خبر یہاں وہاں کھیل رہے ہوتے۔

ایک بار میں نے صوالک سے کہا ”بچوں کو سکول بھیج دیا کریں“
تو انہوں نے کہا”باقی بچے توچھوٹے ہیں لیکن صابر کو بھیج دوں گا“
حالانکہ اسکول بھی کافی دور تھا لیکن انہوں نے منع نہ کی اور صابر روزانہ اسکول آنے لگا،میں انہیں ایک آدھ سال تک الف ب پڑھاتا رہا پھر پارٹی سرگرمیوں کی وجہ سے سکول کو ٹائم نہیں دے سکا اورمیری جگہ کوئی ٹیچراور آگیااورمیرا ناتا سکول سے ٹوٹ گیا۔
صابر کہاں تک پڑھ سکایا درمیان میں ہی بلوچستان کے اکثربچوں کی طرح چھوڑچلا،مجھے معلوم نہ ہوسکا۔

گزشتہ دنوں گریشگ میں ایک جھڑپ کے دوران تین نوجوان مارے گئے،ان میں سے ایک کا نام صابرتھالیکن ابھی تک خبر پوری طرح واضح نہ تھا،کسی نے مجھ سے پوچھا”آپ صابر کو جانتے ہیں“
میں نے کہا”نہیں“
تو اس نے مجھے بتایا،صابر،وہی صوالک کا بیٹاہے“

سوچتا ہوں کہ کل تک لوگ غربت کے مارے صوالک سے نظریں نہیں ملاتے اور آج اپنی سب سے بڑی سرمایہ وطن کو دان کرنے کے بعد صوالک جس بلندی پر فائز ہوچکے ہیں،دنیا اُن سے کیسے نظر ملاپائے گی؟
اوروں کا تونہیں جانتا لیکن میں اتفاقاَزندگی کے کسی موڑ پرصوالک سے ملا توان کی نظروں کا تاب لانا میرے لئے کوہِ طورپر موسیٰ کا اپنے رب کا جلوہ دیکھنے کے مترادف ہوگا،میں جل جاؤں یا بچ پاؤں،یہ صوابدید صوالک کا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here