جبری لاپتہ زرینہ مری سے متعلق پوسٹ کرنے پر حکومتی وزرا کی پریس کانفرنس ، حامد میر پر برہم

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کی خواتین وزراء مینا مجید اور راحیلہ حمید خان درانی نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع کوہلو سے 2005میں زرینہ مری نامی خاتون ٹیچر کے اغواء اور مبینہ ذیادتی کا واقعہ جھوٹ اور غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کاروں کا پروپگنڈا ہے ، محکمہ تعلیم میں تمام ریکارڈ چیک کیا گیا ہے اس نام کی کوئی خاتون موجود ہی نہیں ہے ، ایک سینئر صحافی اس حوالے سے اپنی پوسٹ ڈیلیٹ یا ثبوت فراہم کریں ۔یہ بات انہوں نے بدھ کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ترجمان حکومت بلوچستان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ۔

واضع رہے کہ پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے 23 اگست کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ” زرینہ مری گورنمنٹ مڈل سکول کاہان میں ٹیچر تھیں انہیں 2005 میں کوہلو سے گرفتار کر کے کراچی کے ایک حراستی مرکز میں لیجایا گیا ۔انکا شیر خوار پچہ بھی ساتھ تھا، زرینہ مری کی جبری گمشدگی کو 20 سال گذر گئے اب انکی تصویر اٹھا کر احتجاج کرنے والے بھی لاپتہ ہو چکے لیکن میں یاد دلاتا رہونگا۔

حامد میر نے اپنے پوسٹ میں زرینہ مری کی ایک تصوراتی عکس بھی شیئر کی جو 2005 سے بلوچ لاپتہ افراد لواحقین اور سیاسی و سماجی حلقے سمیت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اپنے احتجاجی مظاہروں میں استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔

حامدمیر کی پوسٹ کے بعد بلوچستان میں عسکری اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی وزرا سرگرم ہوگئے ہیں اور وضاحتیں پیش کرنے سمیت صحافی کو اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرنے یا ثبوت کی فراہمی کا مظالبہ کر رہے ہیں۔

پریس کانفرنس میں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کی مشیر برائے کھیل و امور نوجوانان مینا مجید نے کہا کہ منیر مینگل نامی ایک شخص بیرون ملک سے بیٹھ کر پاکستان مخالف عناصر کا پروپگنڈا اور ملک کے خلاف مہم چلا رہا یہ سب کچھ بھارت کے کہنے پر کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک سینئر صحافی نے پوسٹ کی کہ زرینہ مری کو 2005میں کوہلو سے گرفتار کر کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا یہ بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنیٰ ،من گھڑت دعویٰ ہے کوہلوک ے عوام نے آج تک اس بات کی تصدیق نہیں کی محکمہ تعلیم میں بھی زرینہ مری نام کی کوئی استاد نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 2004سے 2007کے دوران صرف زرینہ نرگس نامی ایک خاتون ٹیچر موجود تھی جبکہ کوہلو کے سینئر ترین محکمہ تعلیم کے ملازم اور اسکول پرنسپل تاج محمد لغانی نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ ایک غلط کہانی ہے جس کا مقصد صر ف اور صرف اداروں کو بدنام کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عوام سے اپیل ہے کہ بے بنیاد پروپگنڈا رد کریں اور بے بنیاد مہم کا حصہ نہ بنیں ۔

اس موقع پرکٹھ پتلی وزیر تعلیم راحیلہ حمید خان درانی نے کہا کہ خاتون کے متعلق انتہائی حساس معاملہ سامنے آنے پر مکمل تحقیقات کی گئی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کوہلو میں 1993میں زرینہ نرگس نام کی استانی تعینات ہوئیں وہ بھی زرکون قوم سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ ان کے علاوہ جتنی بھی زرینہ نام کی خواتین ہیں وہ 2010یا اس کے بعد تعینات ہوئیں ۔

انہوں نے کہا کہ زرینہ مری کے نام سے منسوب کہانی میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔

حکومت بلوچستان کے ترجما ن شاہد رند نے کہا کہ چند روز قبل ایک صحافی نے اس معاملے پر ایکس پر پوسٹ کی تھی حکومت کسی کی ذات یا شخصیت پر نام لیکر انہیں ہدف نہیں بنانا چاہتی لیکن صحافی پر اخلاقی تقاضہ عائد ہوتا ہے کہ یا تو وہ ثبوت فراہم کریں یا پھر اپنی پوسٹ کو ڈیلیٹ کریں ۔

Share This Article