انسدادِ دہشت گردی عدالت کراچی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی )کے آرگنائزرڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف 5 ستمبر کو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔ یہ تاریخ وہی ہے جب کوئٹہ کی اے ٹی سی کی جانب سے دیا گیا موجودہ ریمانڈ ختم ہو رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جبران ناصر نے اس پیش رفت کو "ریاستی اداروں کی جانب سے بدنیتی پر مبنی صوبوں کے مابین عدالتی ہم آہنگی” قرار دیا ہے، جس کا مقصد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو ہراساں اور بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔
جبران ناصر نے اپنے بیان میں کہا کہ متعلقہ ایف آئی آر اکتوبر 2024 میں تھانہ قائدآباد کراچی میں ایک نجی شہری کی مدعیت میں درج کی گئی تھی، جس میں دفعہ 124-اے (بغاوت) سمیت متعدد دفعات شامل کی گئیں۔ تاہم، لاہور ہائی کورٹ نے دفعہ 124-اے کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دے رکھا ہے۔ مزید برآں، جس وقت واقعے کا الزام لگایا گیا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ڈیفنس کراچی میں ایک وکیل کے دفتر میں موجود تھیں، جس کے شواہد سی سی ٹی وی اور عینی شاہدین سے ثابت ہیں۔
ایڈووکیٹ جبران ناصر کے مطابق، ایف آئی آر میں کسی جرم کا ذکر نہیں، بلکہ صرف مدعی کی ذاتی رائے اور شکایات درج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ میں اس ایف آئی آر کو کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر عدالت نے ابتدائی طور پر گرفتاری سے روکنے کا حکم دیا، مگر بعد میں یہ معاملہ دیگر آئینی مقدمات کی طرح مؤخر کر دیا گیا۔
ناصر نے مزید کہا کہ 18 مارچ 2025 کو ہائی کورٹ نے صرف تفتیشی افسر کے زبانی بیان پر کیس نمٹا دیا کہ چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرایا جا چکا ہے، حالانکہ حقیقت میں چالان یکم اگست 2025 کو تیار کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے اس اصول کو بھی نظرانداز کیا کہ صرف چالان جمع ہونے سے ایف آئی آر کی قانونی حیثیت پر فیصلہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں دائر سی پی ایل اے کئی ماہ سے التوا کا شکار ہے، جس کی پہلی سماعت تک نہیں ہو سکی۔ ان کے مطابق یہ تاخیری حربے دراصل ماہ رنگ بلوچ کی حراست کو طول دینے کے لیے ہیں تاکہ کوئٹہ میں ریمانڈ ختم ہونے کے بعد انہیں کراچی منتقل کر کے مزید نظربند رکھا جا سکے۔
ایڈووکیٹ جبران ناصر نے زور دیا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کام ریاستی زیادتیوں پر نظر رکھنا اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہے، مگر غیر معینہ التوا اور متبادل فورمز پر بھیجنے جیسے اقدامات دراصل ریاستی جبر کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔