تمہید: سچ کی تلاش یا جھوٹ کی ترویج؟
پاکستان میں صحافت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں اسے سچائی کی آواز بننے کے بجائے ریاستی بیانیے کا آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا، جو عوام کے لیے آئینے کا کردار ادا کرتا ہے، اب اسی ریاست کی تحریف سے دھندلا چکا ہے جو اسے اپنی مرضی کے رنگوں سے رنگنا چاہتی ہے۔ یہ تحریر پاکستانی میڈیا کے کردار، ریاستی بیانیے کی حکمت عملی، اور وجاہت کاظمی اور کامران یوسف جیسے نام نہاد صحافیوں کی پراکسی ذہن سازی کا جائزہ پیش کرتی ہے، جو نہ صرف سچ کو مسخ کرتے ہیں بلکہ ایک منظم فکری جنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔
ریاستی بیانیہ: ایک جھوٹ کی منظم عمارت
ریاستی بیانیہ وہ مرکزی خیال ہے جو ریاست اپنی بقا، اقتدار، اور تشخص کے تحفظ کے لیے عوام کے ذہنوں میں راسخ کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں جمہوریت نیم دائرے میں سانس لیتی ہے، یہ بیانیہ میڈیا، تعلیمی نصاب، اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ، یا گلگت بلتستان میں جب بھی عوامی مزاحمت یا قوم پرستی کی آواز بلند ہوتی ہے، ریاستی بیانیہ فوراً متحرک ہو جاتا ہے۔
یہ بیانیہ ایک ہی سانچے سے ڈھلا ہوتا ہے:
"یہ غیر ملکی سازش ہے۔”
"یہ را، موساد، یا سی آئی اے کا ایجنڈا ہے۔”
"یہ لوگ وطن سے غداری کر رہے ہیں۔”
یہ نعرے نہ صرف مزاحمتی تحریکوں کو بدنام کرتے ہیں بلکہ عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کی ہمدردی کو ریاست کے حق میں موڑ دیتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا: صحافت سے پراپیگنڈہ تک
پاکستانی میڈیا، جو کبھی عوام کی آواز سمجھا جاتا تھا، اب ایک ایسی مشینری میں تبدیل ہو چکا ہے جو ریاستی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے کام کرتی ہے۔ بڑے میڈیا ہاؤسز جیسے ARY، Geo، Dunya، اور Express سے لے کر سوشل میڈیا پر ابھرتے "ڈیجیٹل پراکسیز” تک، سب ایک ہی اسکرپٹ کے تابع نظر آتے ہیں۔ جو صحافی اس اسکرپٹ سے انحراف کی کوشش کرتا ہے، اسے یا تو خاموش کر دیا جاتا ہے یا وہ اپنے ضمیر کی قیمت پر زندہ رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
میڈیا کی یہ تبدیلی کوئی اتفاقیہ نہیں۔ یہ ایک منظم حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جس میں:
خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔
سوالات کو الزامات میں بدل دیا جاتا ہے۔
عوام کو جذباتی طور پر ہائی جیک کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ عوام سچ کی تلاش کے بجائے اس جھوٹ کو قبول کر لیں جو ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
وجاہت کاظمی: سچ کا قاتل یا پراپیگنڈے کا سپاہی؟
وجاہت کاظمی، جو خود کو غیر جانبدار صحافی کے طور پر پیش کرتے ہیں، درحقیقت ریاستی بیانیے کے وفادار کالم نویس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ حالیہ تناظر میں، انہوں نے الجزیرہ کے صحافی عبداللہ مسویس کے ایک آرٹیکل کو اپنی "بریکنگ نیوز” کا حصہ بنایا۔ عبداللہ نے اپنے آرٹیکل میں صرف ایک سوال اٹھایا تھا: "Is Israel trying to hijack the Baloch struggle?” لیکن وجاہت نے اسے ایک فیصلہ کن انکشاف کے طور پر پیش کیا: "الجزیرہ نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل بلوچ تحریک کو سنبھال رہا ہے۔”
یہ وہی "Disinformation through oversimplification” کی تکنیک ہے جو ریاستی پراپیگنڈے کا اہم حربہ ہے۔ سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے، سوال کو الزام میں بدل کر، اور عوام کو جذباتی طور پر مشتعل کر کے، وجاہت جیسے صحافی سچ کو فریب میں بدل دیتے ہیں۔ یہ صحافت نہیں، بلکہ ایک منظم ذہنی جنگ کا حصہ ہے۔
کامران یوسف: معتدل نقاب میں فکری ہتھیار
کامران یوسف اپنے نرم لہجے اور "متوازن” رپورٹنگ کے لیے مشہور ہیں، لیکن ان کے تجزیوں کا گہرا جائزہ لیا جائے تو ان کی ہر دوسری رپورٹ یا وی لاگ میں وہی ریاستی بیانیہ جھلکتا ہے۔ وہ بارہا یہ دعوے دہراتے ہیں کہ:
بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھارت سے فنڈنگ مل رہی ہے۔
پاکستانی ادارے انسانی حقوق کا مکمل احترام کرتے ہیں۔
مسنگ پرسنز کا بیانیہ دشمن کی چال ہے۔
ان کا انداز بظاہر معتدل ہوتا ہے، لیکن یہ اعتدال ایک نقاب ہے جو فاشزم کے دفاع کو چھپاتا ہے۔ وہ مظلوم کو مشکوک بناتے ہیں، انسانی حقوق کے سوالات کو سیکیورٹی کے نعروں تلے دبا دیتے ہیں، اور عوام کی ہمدردی کو ریاست کے حق میں موڑ دیتے ہیں۔
بیانیے کی طاقت: سچ کو دشمنی میں بدلنا
ریاست اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر وہ کسی تحریک کو طاقت سے دبا نہیں سکتی، تو اسے فکری، اخلاقی، اور عالمی سطح پر مشکوک بنا دیا جائے۔ یہی ریاستی بیانیے کا اصل مقصد ہے:
بلوچ جدوجہد کو "را” سے جوڑ کر بدنام کرنا۔
پختون تحفظ موومنٹ کو "افغان ایجنٹ” قرار دینا۔
سندھی قوم پرستوں کو "دہشت گرد” کا لیبل لگانا۔
سچ بولنے والے صحافیوں کو "غیر ریاستی عناصر” کا آلہ کار کہنا۔
یہ بیانیہ عوام کو سچ دکھانے کے بجائے وہ جھوٹ ماننے پر مجبور کرتا ہے جو ریاست ان کے لیے تیار کرتی ہے۔
اختتام: سچ کی تلاش، صحافت کی بحالی
آج پاکستانی عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا قبول کریں گے: وہ سچ جو چھپایا جا رہا ہے، یا وہ جھوٹ جو دکھایا جا رہا ہے۔ وجاہت کاظمی، کامران یوسف، اور ان جیسے دیگر پراکسی دانشوروں کے "بریکنگ نیوز” اور "متوازن تجزیوں” کو بے نقاب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میڈیا کو دوبارہ عوام کا آئینہ بنانے کے لیے:
ہمیں ریاستی بیانیے کے ہر دعوے پر سوال اٹھانا ہوگا۔
ہمیں صحافیوں کے نقاب میں چھپے پراپیگنڈہ کاروں کو پہچاننا ہوگا۔
ہمیں سچ کی تلاش کو اپنی ذمہ داری بنانا ہوگا۔
***