اقوام متحدہ نے جمعرات 24 جولائی کو کہا ہے کہ طالبان حکام ایران اور پاکستان کی جانب سے وطن واپسی پر مجبور کیے جانے والے افغانوں کے خلاف تشدد اور من مانی حراست سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رواں برس یعنی 2025ء میں اب تک 1.9 ملین سے زائد افراد افغان باشندے اپنے ملک لوٹے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایران سے لوٹنے والے افغان باشندے ہیں۔
رپورٹ کے اجراء کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک واپس آنے والے افراد میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
ان خلاف ورزیوں میں تشدد اور بدسلوکی، من مانی گرفتاری اور حراست اور ذاتی سلامتی کو خطرات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے حال ہی میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 ء میں 30 لاکھ افراد افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی یہ رپورٹ واپس آنے والے 49 افغانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کے خلاف ان کی مخصوص پروفائل کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں خواتین، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ اگست 2021ء میں ختم ہونے والی سابق حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
طالبان حکومت نے اس سے قبل واپس لوٹنے والے ایسے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی تھی اور طالبان کی شورش کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران نیٹو افواج اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا، ” کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی تاریخ کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”افغانستان میں، یہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ واضح ہے، جنہیں ایسے متعدد اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہیں۔‘‘
گزشتہ چار برسوں کے دوران طالبان حکامکی جانب سے خواتین کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں، عوامی پارکوں، جم اور بیوٹی سیلونوں میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جسے اقوام متحدہ نے ‘صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کی ان کی تشریح ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اور امتیازی سلوک کے الزامات ‘بے بنیاد‘ ہیں۔