مطیع اللہ جان اور اسد طور کے یوٹیوب چینل بلاک کرنے کا حکم معطل

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے دو صحافیوں اسد طور اور مطیع اللہ جان کے یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم معطل کیا ہے۔

نیشنل کرائمز ایویسٹیگیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کی درخواست پر مقامی عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں پر ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ویسٹ محمد افضل مجوکا نے سماعت کی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہ کہ درخواست گزاروں یعنی اسد طور اور مطیع اللہ جان کو اس حوالے سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران عدالت نے دونوں صحافیوں کے یوٹیوب چینلز پر عائد کی گئی پابندی ختم کرنے کا حکم دیا جبکہ این سی سی آئی کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 8 جولائی کو این سی سی آئی اے کی درخواست پر اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان چینلز میں صحافیوں کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کا آفیشل چینل بھی شامل ہے۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے یوٹیوب چینل بلاک کرنے کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’ریاست مخالف مواد کے حوالے سے این سی سی آئی اے نے دو جون کو انکوائری شروع کی تھی۔‘

عدالتی حکم نامے سے یہ پتا چلتا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگشین ایجنسی کے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد نے متعلقہ حکام کی منظوری سے یہ انکوائری کی۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے کے تحت چلنے والے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے این سی سی آئی اے کی صورت میں ایک نئی ایجنسی قائم کی گئی تھی، جو اب سائبر کرائم سے متعلق تحقیقات کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے پیکا ایکٹ 2016 میں متنازع ترامیم بھی متعارف کروائی تھیں۔

این سی سی آئی اے کے مطابق یہ یوٹیوب چینلز ریاستی اداروں کے خلاف جعلی اور گمراہ کن خبریں نشر کرتے ہیں۔ ’ایسی خبروں سے معاشرے اور عوام میں خوف، ہیجان، نقص امن یا بے امنی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘

این سی سی آئی اے کے مطابق جعلی ریمارکس اور اطلاعات کے ذریعے ریاستی اداروں کے حکام کی رازداری کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ این سی سی آئی اے نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ یہ چینلز ریاستی اداروں اور حکام کے خلاف دھمکی آمیز، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد پھیلاتے ہیں۔

ان چینلز پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ یہ عام عوام اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو ریاستی ستونوں کے خلاف بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے انکوائری افسرکو سنا اور دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا اور شواہد کی بنیاد پر عدالت سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ پیکا ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ یوٹیوب کے متعلقہ حکام کو حکم دیا جاتا ہے کہ ان 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کیا جائے۔

Share This Article