اسرائیل و غزہ میں حماس اور اسرائیلی حکومت کیخلاف احتجاجی مظاہرے

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

اسرائیل اور غزہ میں حماس اور اسرائیلی حکومت کے خلاف عوام نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔

اتوار کے روز، تقریباً 500 مظاہرین نے اسرائیل کے نئے فوجی حملے کے خلاف احتجاجاً سڈروٹ شہر سے غزہ کی سرحد تک مارچ کیا۔

ان میں سے اکثر ٹی شرٹس پہنے ہوئے تھے جس پر ’غزہ میں بربریت بند کرو‘ لکھا ہوا ٹھا اور انھوں نے اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں۔

اس مظاہرے کا اہتمام ’سٹینڈنگ ٹوگیدر‘ نامی ایک گروپ نے کیا تھا جو اسرائیل کے یہودی اور فلسطینی شہریوں کا ایک چھوٹا لیکن تیزی سے بڑھتا ہوا جنگ مخالف گروپ ہے۔ انھوں نے ایک سڑک بلاک کرنے کی کوشش کی، اور گروپ کے رہنما، ایلون لی گرین، اور آٹھ دیگر کو گرفتار کر لیا گیا۔

گرین نے بی بی سی کو بتایا، ’میرے خیال میں یہ واضح ہے کہ اسرائیلیوں میں بیداری آئی ہے، اور زیادہ لوگ زیادہ واضح موقف اختیار کر رہے ہیں۔‘

اس گروپ کے ایک کارکن اوری ویلٹ مین کہتے ہیں کہ ان کا خیال میں لوگوں کا اس بات پر یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ جنگ کا جاری رہنا نہ صرف فلسطینی شہریوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ یرغمالیوں ، فوجیوں اور ہم سب کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔

یاد رہے کہ فوج کی مختلف شاخوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اسرائیلی ریزرو فوجیوں نے اپریل میں خطوط پر دستخط کیے تھے جس میں نتن یاہو حکومت سے لڑائی بند کرنے اور بقیہ مغویوں کی واپسی کے لیے بات چیت پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تاہم، اسرائیل میں بہت سے لوگ اس سے مختلف خیالات بھی رکھتے ہیں۔

اسی طرح گذشتہ تین روز سے جنوبی غزہ میں فلسطینی حماس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں افراد جنگ کے خاتمے اور عسکریت پسند گروہ کی غزہ سے بیدخلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

غزہ میں حماس کے خلاف آواز اٹھانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ منگل کے روز صحافیوں کے واٹس ایپ گروپس پر انھیں کسی بھی ایسی ’منفی خبر‘ کی اشاعت سے منع کیا گیا جس سے لوگوں کے مورال کو ٹھیس پہنچے۔

سماجی کارکنوں کے مطابق یہ احتجاج سوموار کے روز نو عمر نوجوانوں کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس میں دیگر لوگ شامل ہوتے گئے۔

مظاہرین کے غصے کا نشانہ حماس کے سینیئر رہنما تھے اور اس کی وجہ حماس رہنما سمیع ابو زہری کا حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک انٹرویو ہے۔

ویڈیو جو کہ مارچ میں نشر ہونے والے ایک پوڈ کاسٹ کی ہے میں زہری کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ ’دائمی‘ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم گھروں کو دوبارہ تعمیر کریں گے اور ہر شہید کے بدلے مزید درجنوں بچے پیدا کریں گے۔‘

جیسے جیسے غزہ میں اسرائیلی جنگ تشدد کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں جیسے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔

بائیں بازو کے سیاست دان اور اسرائیلی فوج کے سابق ڈپٹی کمانڈر یائر گولن کو سوموار کے روز اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے ایک سمجھدار ملک کی طرح برتاؤ کرنا شروع نہیں کیا تو اسرائیل بھی جنوبی افریقہ کی طرح ایک پاریہ ریاست بن جائے گا۔

اسرائیلی ریڈیو پر مارننگ نیوز پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’ایک سمجھدار ریاست عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں کرتی، کسی مشغلے کے طور پر بچوں کو ہلاک نہیں کرتی، اور اپنے علاقوں سے مکینوں کو نکالنے کا ہدف نہیں اپناتی۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ان بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے انھیں ’بہتان‘ قرار دیا ہے۔

سابق اسرائیلی وزیر دفاع اور چیف آف سٹاف موشے ’بوگی‘ یاعلون نے بدھ کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک حکومتی پالیسی ہے جس کا حتمی مقصد اقتدار سے چمٹے رہنا ہے۔ ’یہ پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔‘

صرف 19 ماہ قبل جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سرحدی باڑ عبور کر کے اسرائیل میں حملہ کیا تھا تو اس وقت اس طرز بیانات ناقابل تصور تھے۔

اب غزہ تباہی کا شکار ہے، اسرائیل نے ایک نیا فوجی حملہ شروع کیا ہے اور 11 ہفتوں کی ناکہ بندی ختم کرنے کے اعلان کے باوجود اب تک غزہ میں پہنچنے والی امداد بہت محدود ہے۔

اسرائیل کے چینل 12 کی طرف سے کرائے گئے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 61 فیصد اسرائیلی جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی محفوظ واپسی چاہتے ہیں، جبکہ صرف 25 فیصد غزہ میں فوجی کارروائیوں میں اضافے اور قبضے کی حمایت کرتے ہیں۔

اسرائیلی حکومت کا اصرار ہے وہ حماس کو ختم کرے گی اور بقیہ یرغمالیوں کو بچا لے گی۔ نتن یاہو کہتے ہیں کہ وہ ایک ’مکمل فتح‘ حاصل کر سکتے ہیں۔

سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گیرشون باسکن کہتے ہیں کہ اسرائیلی معاشرے کے دیگر طبقات میں ’مایوسی اور صدمے‘ کے جذبات پائے جاتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے یرغمالیوں کے خاندانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ جنگ ختم ہونی چاہیے اور ایک معاہدہ ہونا چاہیے۔

تاہم ایک قلیل تعداد پہلے حماس کے خاتمے اور پھر یرغمالیوں کو آزاد کروانے کے حق میں بھی ہے۔

Share This Article