بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ہدہ جیل میں گذشتہ شب بی وائی سی کی خواتین قیادت پر ہونے والے تشددکا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس آفیسر زرغونہ ترین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بیبو بلوچ اور گلزادی کو بے رحمانہ تشددکا نشانہ بنایاہے ، ہم یہ داغ نہیں بھول سکتے۔
یہ بات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انہوں نے اپنے ایک پوسٹ میں لکھا ہے ۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ریاست اور بلوچ کے درمیان واحد رشتہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف ظالم اور مظلوم کا ہے اور ریاست نے خود کو ہمیشہ ایک بے رحم ظالم کے طور پر ثابت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل، ڈاکٹر ماہ رنگ ،گلزادی اور بیبو پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کی ذمہ دار پولیس افسر زرغونہ ترین تھی۔ سی ٹی ڈی اور جیل کے دیگر اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ وہ ہمارے ساتھیوں پر تشدد کریں، لیکن جب اُنہوں نے اس غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام سے انکار کیا، تو زرغونہ ترین کو خود بلایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے برقعہ میں آئی، خود کو چھپائے رکھا، مگر جب اس نے ظلم میں “اعتماد” محسوس کیا تو برقعہ اتار کر ڈاکٹر ماہ رنگ اور بیبو پر بے رحمانہ تشدد شروع کر دیا۔ اس نے نہ صرف بیبو کو مارا بلکہ اُسے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئی۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ کیا ہم یہ داغ بھول سکتے ہیں؟
انہوں نے کہاکہ ڈی سی کوئٹہ ہو یا زرغونہ ترین یہ سب ریاستی ظلم کے آلہ کار ہیں، اور اُن قوتوں کا حصہ ہیں جو بلوچوں کی نسل کشی اور تذلیل پر مامور ہیں۔ جیل میں موجود ہر شخص ان مناظر کو دیکھ کر آبدیدہ تھا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے اُن بلوچ اور پشتون نوجوانوں کے لیے جو آج بھی پولیس، فوج یا ریاستی اداروں کا حصہ بن رہے ہیں کہ کل کو انہی کے سامنے اُن کی ماؤں اور بہنوں کی تذلیل کی جائے گی۔
واضع رہے کہ گذشتہ شب ہدہ جیل میں بیبو بلوچ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ۔بعدازاں جیل سپرنٹنڈنٹ نے تسلیم کیا کہ انہیں پشین جیل میں منتقل کیا گیا ہے لیکن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا ہے کہ بیبو بلوچ کو جبری گمشدہ کیا گیا ہے کیونکہ پشین جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں نہیںلایا گیا ہے۔