بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسندوں کے سامنے سرنڈرکرنے کے الزام میں 4 لیویز اہلکاروں ان کی نوکریوں سے برطرف کردیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل بلوچستان لیویز فورس عبدالغفار مگسی کی ہدایت پر، ڈپٹی کمشنر چاغی نے بلوچستان لیویز فورس ڈسپلنری ایکٹ 2015 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے 4 لیویز اہلکاروں کو ان کے فرائض سے برطرف کر دیا ہے۔
یہ اقدام ان کی جانب سے غلط معلومات فراہم کرنے، غفلت برتنے، اور ایک بزدلانہ عمل کے تحت اٹھایا گیا، جس میں انہوں نے لیویز پوسٹ امین آباد پر غیر معروف مسلح افراد کے سامنے اپنے ہتھیار اور واکی ٹاکیز سرنڈر کر دیے تھے۔
برطرف ہونے والے اہلکار وں میںعلی اکبر ولد محمد یعقوب، حوالدار، لیویز پوسٹ امین آباد ،اللہ نور ولد فقیر محمد، سپاہی، لیویز پوسٹ امین آباد،عبدالباقی ولد عبد الحمید، سپاہی، لیویز پوسٹ امین آباد اوراحمد شاہ ولد شادی خان، سپاہی، لیویز پوسٹ امین آباد شامل ہیں۔
کہا گیا کہ یہ فیصلہ ان کی جانب سے ان کی پوزیشنز کے حوالے سے درکار پیشہ ورانہ معیار اور توقعات کی تکمیل میں ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔
واضع رہے کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سیکورٹی رٹ برقرار رکھنے والے فورسز محکمات سمیت سول انتظامیہ افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچستان بھر میں شاہراہیں بلاک کرنے والے سویلین مظاہرین جن میں خواتین ،بچے ، بوڑھے شامل ہیں کو بردستی بزور طاقت ہٹائیں اور شاہراہوں کو ہرقسم کی ٹریفک کے لئے کھول دیں۔ بصورت دیگر انہیں ان کی نوکریوں سے برطرف کردیا جائے گا۔
بلوچستان بھر میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کے خلاف شدید عوامی احتجاج اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے پیش نظر پولیس ، لیوز فورس اور سول انتظامی افسران کو شدید دبائو کا سامنا ہے کیونکہ وہ بطور بلوچ ،عوامی حلقوں کےلئے نرم گوشے رکھتے ہیں۔اور بلوچستان میں روڈ بلاک احتجاج دوران کوشش کرتے ہیں کہ طاقت کااستعمال کئے بغیر بات چیت سے شاہراہیں کھول دی جائیں اور لوگوں کواحتجاج کے دوران شاہراہوں کی بندش سے روکا جاسکے۔
اور دوسری جانب بلوچ عسکریت پسند بھی اپنی کارروائیوں کے دوران لیویز اور پولیس کو جانی نقصان پہنچائے بغیر انہیں محفوظ راستے فراہم کرتے ہیں۔
بعض اہلکار ہٹ دھرمی اور حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کیلئے عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں ،ان کا پیچھا کرتے اور ان کی مخبری کرتے ہیں تو ان پر کسی قسم کی رحم نہیں کی جاتی۔
بعض کارروائیوں کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے پولیس و لیویز اہلکاروں کے چیک پوسٹوں پر حملوں کے دوران ان کے اسلحات قبضے میں لے لئے گئے اور ان کی جان بطور بلوچ بخش دیئے گئے۔لیکن دوسری جانب ایف سی ، اے ٹی ایف ، سی ٹی ڈی ،پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کےلئے یہ رعایت نہیں ہے ۔
اسی بنیاد پر اب لیویز و پولیس سمیت سیول انتظامی افسران کو شدید دبائو کا سامنا ہے کہ اگر انہیں نوکری کرنی ہے تو عسکریت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ انکی ہر قسم مدد کریں ،شاہراہوں پر رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف سخت اقدام اٹھائیںاور عسکریت پسندوں کے کارروائیوں کے دوران ان کا مقابلہ کریں اور ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کریں اگر دوران جان بھی جائے تو گریز نہ کریں۔