بلوچ لبریشن آرمی( بی ایل اے) کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ اپنے ایک پریس ریلیز میں متعدد علاقوں میں پاکستانی فوج پر حملوں میں 12 اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کر تے ہوئے کہا کہ ان کارروائیوں میں 3 سرمچار بھی وطن کے دفاع میں شہید ہو گئے۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے سنی، کوئٹہ، کیچ، پنجگور اور بلیدہ میں مختلف حملوں کے دوران قابض پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں میں شہر کا کنٹرول حاصل کرنا اور قابض فوج کی رسد کو تحویل میں لینا شامل تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں قابض فوج کے بارہ اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ مختلف جھڑپوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے تین سرمچار شہید ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے پنجگور شہر میں سرکاری عمارتوں کو اپنی تحویل میں لیا اور شہر کے مختلف مقامات پر مورچہ زن رہے۔ قابض فوج نے شہر میں پیش قدمی کی کوشش کی تاہم سرمچاروں کی موثر حملوں کے باعث پسپا ہونا پڑا۔ جھڑپوں کے دوران نام نہاد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ "سی ٹی ڈی” کا ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ سرمچاروں کا کنٹرول دو گھنٹوں تک برقرار رہا، جس کے بعد وہ منصوبہ بندی کے تحت بحفاظت واپس ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے قلات مڈ وے پر استحصالی منصوبے ریکوڈک سے منسلک گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ کارروائی کے دوران تین گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا جبکہ قافلے کو سیکیورٹی فراہم کرنے والے قابض فوج کے اہلکاروں کو بھی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
بیان میں کہا گیا کہ چودہ دسمبر کو کیچ کے علاقے دشت میں سیچی کے مقام پر بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے قابض پاکستانی فوج کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ علاقے میں پیش قدمی کی کوشش کررہی تھی۔ قابض فوج اور سرمچاروں کے درمیان طویل جھڑپیں جاری رہیں، جن میں قابض فوج کو جانی نقصانات سے دوچار کیا۔ اسی جھڑپ کے دوران سرمچاروں نے قابض فوج کا ایک کواڈ کاپٹر بھی مار گرایا۔
ترجمان نے کہا کہ تیرہ دسمبر کو بلیدہ کے علاقے میناز میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں نے قابض پاکستانی فوج کیلئے راشن لے جانے والی گاڑیوں کو راشن سمیت اپنی تحویل میں لیا۔ سرمچاروں نے ڈرائیوروں کو تنبیہ کے بعد رہا کردیا۔ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ قابض فوج کیلئے راشن اور دیگر سامان کی ترسیل براہ راست سہولت کاری کے زمرے میں آتی ہے، لہٰذا اس عمل میں ملوث افراد ہمارے نشانے پر ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نو دسمبر کو کچھی کے علاقے سنی میں قابض پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپ کے دوران قابض فوج کے چار اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ دو گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس جھڑپ میں بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچار صوفی اسماعیل شہید ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ چودہ دسمبر کو کوئٹہ کے علاقے ڈغاری میں قابض پاکستانی فوج اور بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کے درمیان اس وقت طویل جھڑپیں شروع ہوئیں جب سرمچار تنظیمی کام کے سلسلے میں سفر کررہے تھے۔ قابض فوج نے سول گاڑیوں کے ذریعے سرمچاروں کو گھیرنے کی کوشش کی، جس پر سرمچاروں نے فوری جوابی کارروائی کی۔ اس جھڑپ میں قابض فوج کے سات اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ بلوچ لبریشن آرمی کے دو سرمچار شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔
بی ایل ایف ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت اسماعیل عرف صوفی ولد دین محمد جتوئی کا تعلق کچھی کے علاقے سنی سے تھا۔ وہ گزشتہ دو سالوں سے بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک تھے اور مستونگ و کچھی کے محاذوں پر خدمات انجام دیں۔ وہ نظم و ضبط اور ثابت قدمی کی علامت تھے اور مشکل حالات میں ساتھیوں کیلئے حوصلے کا سبب بنے۔ آپ کا ایک بھائی فاروق جتوئی 2016 میں شہید ہوا، جو اس خاندان کی مسلسل قربانیوں کی روشن مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سنگت عصمت اللہ ساتکزئی عرف سراج ولد ٹکری ایواز کا تعلق کوئٹہ کے علاقے ڈغاری سے تھا۔ وہ 2024 میں بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوئے اور بولان، کوئٹہ اور مستونگ کے محاذوں پر قومی آزادی کے حصول کیلئے خدمات انجام دیں۔ سادہ زندگی گزارنے والے سنگت عصمت پیشے کے اعتبار سے گلہ بان تھے اور اپنی خاموش جرات اور غیرمتزلزل عزم کے باعث ساتھیوں میں پہچانے جاتے تھے۔
ترجمان نے کہا کہ شہید سنگت سجاد زہری عرف سارنگ ولد محمد اسلم زہری کا تعلق خضدار سے تھا۔ بیس سالہ سنگت سجاد ایک سال قبل بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوئے، بولان، مستونگ اور کوئٹہ کے محاذوں پر خدمات انجام دیں۔ کم عمری کے باوجود وہ ذمہ داری کے احساس، سیکھنے کی لگن اور عملی جرات کی وجہ سے ساتھیوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ لبریشن آرمی واضح کرتی ہے کہ قابض ریاست کی عسکری پیش قدمی، استحصالی منصوبوں اور سہولت کاری کے تمام ڈھانچوں کو منظم اور منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ ہماری کارروائیاں قومی آزادی کے مقصد سے وابستہ ہیں اور شہداء کی قربانیاں اس جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان کا مشن ہر محاذ پر جاری رہے گا اور مزاحمت کا یہ سفر اپنے منطقی انجام تک پہنچنے تک ہی رکے گا۔