طاقت سے بلوچستان کا مسئلہ آئندہ سو سالوں میں بھی حل نہیں ہوگا، غفور حیدری

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری نے ایس ایم سی فارم اوتھل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال 1952 سے خراب چلی آ رہی ہے۔ یہ جنگ کبھی شدت اختیار کر لیتی ہے اور کبھی کم ہو جاتی ہے، مگر مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ جب نواب نوروز خان گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھیوں نے مل کر الیکشن لڑا۔جن میں سردار عطااللہ مینگل سمیت دیگر قوم پرست رہنما شامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام اس وقت بھی ایک بڑی جماعت تھی اور 1973 میں تمام سیاسی قوتوں نے مل کر پاکستان کو متفقہ آئین دیا، تاہم بعد ازاں طویل عرصہ پاکستان آئین سے محروم رہا اور ہر آنے والے حکمران نے اپنا کردار ادا کیا۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ 1973 کا آئین جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ 1974 میں بلوچستان میں سردار عطااللہ مینگل جبکہ خیبر پختونخوا میں دوسری حکومتیں قائم تھیں، مگر جنرل ضیاالحق کے دور میں معافی کے اعلانات کے باوجود حالات بہتر نہ ہو سکے اور بدامنی میں اضافہ ہوتا گیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہیں اور حکومت کسی اور کے اشاروں پر چل رہی ہے۔ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے، اصل اختیار ان کے پاس ہے جن کے ہاتھ میں طاقت ہے۔ اگر وہ اپنی روش تبدیل کر لیں تو بلوچستان کے مسائل آج نہیں تو کل حل ہو سکتے ہیں، لیکن طاقت کے زور پر مسائل کا حل تلاش کرنے سے بدامنی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔

مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ میں بحیثیت جنرل سیکریٹری جمعیت علمائے اسلام حکمرانوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ روش سے بلوچستان کا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ 75 سال گزرنے کے باوجود اگر مسئلہ حل نہیں ہوا تو اسی طرزِ عمل کے ساتھ آئندہ سو سال میں بھی حل نہیں ہو گا۔ دونوں جانب مارے جانے والے نوجوان ہمارے ہی بچے ہیں، چاہے وہ فورسز سے ہوں یا پولیس سے، ایک دوسرے کو قتل کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک سینیئر پارلیمانی رکن کی حیثیت سے 32 سال سے زائد عرصہ بطور سینیٹر، ایم این اے اور ایم پی اے مختلف حالات دیکھ چکا ہوں۔ ہم اپوزیشن میں ہیں، اصل اقدامات وہی کر سکتے ہیں جو حکومت میں ہیں، تاہم جمعیت علمائے اسلام عوامی مسائل کے حل کے لیے کبھی خاموش نہیں رہے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم سے مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔ آئین میں ترمیم تب ہونی چاہیے جب قومی مفاد درکار ہو، مگر یہاں شخصی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اگر موقع ملا تو ساتویں ترمیم کی طرز پر تمام غلط ترامیم ختم کی جائیں گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس طرزِ حکمرانی سے کوئی بھی حکومت عوامی مسائل حل نہیں کر سکتی۔

اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی نائب امیر مولانا غلام قادر قاسمی صاحب سابق رکن بلوچستان اسمبلی مکھی شام لال لاسی ضلعی جنرل سیکرٹری مولانا شاہ محمد صدیقی تحصیل سونمیانی وندر کے امیر مفتی امین اللہ بنوری جنرل کونسلر جیررام داس رام لاسی رمیش کمار لاسی سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔

Share This Article