پریس کلب کوئٹہ کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا بڑی تعداد میں مجمع، لاپتہ پیاروں کے حوالے سے تقاریر کے دوران آنکھیں اشکبار ہوگئی۔
کوئٹہ میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے جبری گمشدگی کو گیارہ سال مکمل ہونے پر ان کے لواحقین اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں بڑی تعداد میں خواتین، مرد اور بچوں نے شرکت کی۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر لیئے مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرے کی قیادت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، چیئرمین نصراللہ بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، مہلب بلوچ اور سماجی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی تھی۔
ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اٹھائیس جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے اورناچ سے ان کے سرکاری رہائش گاہ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔
دین محمد بلوچ کے بیٹیوں سمی بلوچ اور مہلب بلوچ نے ان کی بازیابی کے لیے کوئٹہ اور کراچی میں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا، مختلف فورمز پر جاکر اپنے والد کے بازیابی کے لیے آواز اٹھائی۔ علاوہ ازیں انہوں نے کوئٹہ تا کراچی اور اسلام آباد تک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے لانگ مارچ میں بھی حصہ لیا۔
سمی بلوچ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاید کسی کو اندازہ ہو کہ گیارہ سال کا طویل عرصہ کس قدر اذیت سے سے ہم نے گزارا ہے۔ ہم نے تمام حکومتی عہدیداروں کو درخواستیں لکھیں، آج یہاں جمع ہے اس موقع پر ہمارے ساتھ حکومتی عہدیداروں کو ہونا چاہیے تھا۔ آج ان لوگوں کو میرے ساتھ ہونا چاہیے تھا جو بلوچستان میں ترقی اور انسانیت کا نام لیتے ہیں لیکن افسوس ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جن تک اپنی بات پہنچانا چاہتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے درمیان موجود نہیں ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ آپ انصاف اور انسانی حقوق کا نام لیکر اپنے والد کیلئے آواز اٹھائے لیکن ان گیارہ سالوں میں انصاف اور انسانی حقوق کو ہم نے نہیں دیکھا۔
سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر دین محمد کے بازیابی کیلئے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ سمیت تمام قانونی طریقے اپنائیں، جسٹس جاوید اقبال نے چھوٹی بہن سے کہا تھا کہ تمہارے گھر پہنچنے سے پہلے تمہارے والد بازیاب ہوکر گھر پہنچ جائینگے۔ یہ سب ادارے ہمیں جھوٹی تسلیاں دیتی رہی ہے، یہ ہمارے ساتھ مذاق کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کس قانون کے تحت ڈاکٹر دین محمد کو لاپتہ کرکے ان کے خاندان کو بھی سزا دی جارہی ہے۔ یہاں میڈیا میں ہماری ایک تصویر تک نہیں آتی ہے، ہمیں اتنی حیثیت نہیں دی جاتی ہے کہ اپنے پیاروں کیلئے احتجاج کرنے والوں کو میڈیا میں جگہ دی جائے۔
مظاہرے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آکر شرکت کرنے والے افراد نے لواحقین نے بھی خطاب کیا جنہوں نے اپنے پیاروں کے بازیابی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو پیاروں پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے انکشاف کیا ان کے بھائی کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے پر انہیں دھمکیاں دی گئی۔ انہیں کہا گیا کہ اگر آپ خاموش نہیں رہینگے تو تمہارے لاپتہ بھائی کو قتل کردیا جائے گا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کے پیاروں کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ہے۔ احتجاج کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ حکومتی ادارے جھوٹی تسلیاں دیکر انہیں چھپ رہنے کی تلقین کرتی ہے جبکہ ملکی قوانین موجود ہیں جن کے تحت اگر کسی پر الزام ہے تو انہیں قوانین کے تحت سزا دی جاسکتی ہے۔
بلوچ ڈاکٹرز فورم نے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ اور ڈاکٹر اکبر مری کی اغواء نماگمشدگیوں کو عرصہ دراز گزر چکا ہے لیکن انہیں منظر عام پر نہیں لایا گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹرز کمیونٹی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے بیان کے مطابق ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی عدم بازیابی اور اس مسئلے کو دنیا میں متعارف کرانے کیلئے عالمی سطح پراحتجاجی پروگرام کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ سوشل میڈیا میں
#SaveDrDeenMohdBaloch
کے ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین جاری ہے جو ٹرینڈ کرچکا ہے۔
خیال رہے وائس بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاج گذشتہ ایک دہائی کے زائد عرصے سے جاری ہے جس آج 4003 دن مکمل ہوچکے ہیں۔