بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترمینگل نے کراچی میں اپنے رہائش گاہ پر میڈیا کے نمائندوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ شہباز شریف اور زرداری کی امامت میں پڑھایا گیا ہے،اس ملک میں جمہوریت نہیں بوٹ کی بادشاہی ہے ۔ میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ اس لیئے دیا کہ قومی اسمبلی کے اندر ہماری بات کو سننے والا کوئی نہیں۔
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر مملکت سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن میر محمد ہاشم نوتیزءحمید ساجنا نواب زادہ میر نیاز احمد زرکزءندیم گرگناڑی احمد خان رئیسانی امیرحمزہ خان گرگناڑی نزیر بروہی و دیگر افراد موجود تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اب یتیم خانہ ہے ،اسی لیئے طاقتور قوتوں کی کو شش تھی کہ جس طرح ہو بلوچستا ن کی حقوق کے لیئے آواز اٹھانے والوں کو اسمبلیوں سے آؤٹ کیا جائے اور وہ اپنےان خواہشات میں کامیاب ہوگئے ۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ میں نے قومی اسمبلی سے استعفی’ دیدیاہے، اب استعفی’ واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر مجھ سے میرے سینٹروں کی طرح اٹھا کر بندوق کے زور استعفیٰ لیا جائے گا تو اور بات ہے لیکن استعفیٰ واپس لینا اب قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اب کوئی قوم پرست پارٹی نہیں ہے، نہ بلوچستان نیشنل پارٹی قوم پرست ہے، نہ ہی نیشنل پارٹی اب قوم پرست رہا ہے ۔پاکستان میں جمہوریت ہوتی تو تربت سے ڈاکٹرمالک ایم این اے ہوتا ناکہ افغانستان کا کوئی ماجر ایم این اے بنایا جاتا۔پہلے بلوچستان کے وسائل سرزمین لاوارث تھا اب بلو چستا ن کی سیاست لاوارث ہوگیا ہے ۔
بی این پی رہنما نے کہا کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے ہم ان کے اتحادی تھے، عمران خان آصف زرداری اور اس کی بہن فریال تالپور کو گرفتار کرنا چاہتے تھے ۔ زرداری نے مجھے کہا تو میں نے عمران خان کو کہا کہ آصف زرداری کی بہن ایک خاتون ہے، اسے گرفتار کرنے کے بجائے ہاؤس اریسٹ کریں لیکن جب آصف زرداری صدر بنے تو سب سے پہلے میرے خاتون سینیٹر کو حراست میں لیکر چھبیسویں آئینی ترامیم کے لئے ووٹ دلوایا اور ہم پر بوگس ایف آئی آر درج کیا گیا ۔
اختر مینگل نے کہا کہ آج آئین میں جو ترامیم کیا جاتاہے جی ایچ کیو سے پرچی ممبران اسمبلی کے ہاتھ تھماکر اپنے مرضی سے آئین میں تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔بلوچستان کے نوجوان پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں، پارلیمانی سیاست وہ سیاست نہیں رہا جسے عبادت یاخدمت سمجھ کر کئے جاتے تھے ۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اب بلوچستان میں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی بھی قوم پرست پارٹیاں بن گئے ہیں ہم سے زیادہ قوم پرست سرفرازبگٹی اورعلی مدد جتک بن گئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ حکومت کے لئے دعا نہیں کرسکتے البتہ اپنے نوجوانوں کے لئے دعاگو ہیں بلوچستان کی حالات جس نہج پر پہنچا دیئے گئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ اب بلوچ حقوق کے لئے بات کرنا جرم بن گیا ہے ۔ آئے روز مسخ شدہ لاشیں گرا نا نوجوانوں کا غائب کرنا معمول بن گیا ہے ۔ ماؤں بہنوں کی چیخ وپکار سے بلوچستان کی سر زمین لرز اٹھا ہے۔ ان حالات میں پارلیمانی سیاست آخری سانسیںلے رہاہے۔