پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے بانی عمران خان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے اکاؤنٹ پر پاکستانی فوج کی تحویل میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے کورٹ مارشل کے دوران انھیں چارٹ شیٹ کیے جانے پر ردعمل دیا گیا ہے۔
ایک پیغام میں ان کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ’جنرل فیض، جنرل باجوہ کے ماتحت تھے۔۔۔ نو مئی کے سلسلے میں جنرل فیض سے تعلق جوڑنا احمقانہ بات ہے۔‘
اس پیغام کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم نے صحافیوں اور وکلا سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’ہم اداروں سے کہتے ہیں کہ جو لوگ عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کا کام کر رہے ہیں انہیں پہچانیں اور روکیں- ہم اپنا ملک ٹوٹنے نہیں دیں گے۔‘
خیال رہے کہ 10 دسمبر کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ’ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش کی جا رہی ہے۔‘ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جنرل فیض کے خلاف ’مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت سے 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں۔‘
عمران خان کے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ان کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کا معاملہ ’فوج کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا ہے کہ ’جب میں وزیرِ اعظم تھا جنرل فیض جنرل باجوہ (اُس وقت کے آرمی چیف) کی اجازت سے مجھے ملتے تھے اور پھر جنرل باجوہ کو ڈی بریف بھی کرتے تھے۔ نو مئی کے سلسلے میں جنرل فیض سے تعلق جوڑنا احمقانہ بات ہے۔
خیال رہے کہ نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں متعدد شہروں میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے جن میں فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی قیادت پر نو مئی سے جڑے کئی مقدمات قائم کیے گئے تھے جن میں انسداد دہشتگردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔
اس پر عمران خان نے سوال کیا ہے کہ ’کیا مجھے پتہ تھا کہ نو مئی کو مجھے گرفتار کرنا ہے؟ تو سازش کس بات کی کرنی تھی؟ جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد ہماری کیا مدد کر سکتے تھے؟‘
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ’اصل حساب تو جنرل باجوہ کا ہونا چاہیے جس نے ہماری منتخب حکومت کے خلاف سازش کی۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت نے اگست میں فیض حمید کی گرفتاری کے وقت کہا تھا کہ وہ عمران خان کی قیادت میں اس ’سیاسی گٹھ جوڑ‘ کا حصہ تھے جس نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پُرتشدد احتجاج کی منصوبہ بندی کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ ’اس وقت تک حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان کسی قسم کا کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوا ہے۔‘
عمران خان کی طرف سے اس پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سول نافرمانی کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا- اگر سینئر ترین ججز پر مشتمل آزاد جوڈیشل کمیشن اور انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی کے ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے تو سول نافرمانی کی تحریک بھرپور طریقے سے چلائی جائی گی جس میں پہلا قدم اووررسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں کمی کی مہم ہو گی۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے بانی کا دعویٰ ہے کہ 26 نومبر کو جماعت کے اسلام آباد میں مظاہرے کے دوران قانون نافد کرنے والے اداروں کی طرف سے گولیاں چلائی گئیں تاہم حکومتی وزرا اس کی تردید کرتے ہیں۔ 11 دسمبر کو ایک بیان میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی جماعت ’گولی چلنے کا جھوٹا بیانیہ بنا رہی ہے، گولی چلی ہے تو ثبوت سامنے کیوں نہیں لاتے؟‘
عمران خان نے اس معاملے پر تحقیقات اور اپنے کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے ایکس پر لکھا ہے کہ ’ہم اداروں سے کہتے ہیں کہ جو لوگ عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کا کام کر رہے ہیں انھیں پہچانیں اور روکیں- ہم اپنا ملک ٹوٹنے نہیں دیں گے۔‘
خیال رہے کہ توشہ خانہ کے دوسرے کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم کر دی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے 2021 میں دورۂ سعودی عرب کے دوران حاصل شدہ بلگاری جیولری سیٹ توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا۔ تاہم وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما سید ذوالفقار (زلفی) علی بخاری نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی عمران خان کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ سے جاری ہونے والے بیانات کو ان کی سوشل میڈیا چلاتی ہے۔
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا ٹیم کو عمران خان کے بیانات ان کی قانونی ٹیم یعنی وکلا سے ذریعے موصول ہوتے ہیں۔
’عمران خان جیل میں قید ہیں اور ان سے ملاقات کرنے والی قانونی ٹیم اور وکلا ہی ان کے پیغامات سوشل میڈیا ٹیم کو دیتے ہیں۔‘
ایک سوال پر کہ کیا یہ پیغامات تحریری ہوتے ہیں یا زبانی، زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ چونکہ جیل میں لکھنے کی اجازت نہیں لہذا یہ تمام پیغامات زبانی ہوتے ہیں جو عمران خان سے ملاقات کرنے والے وکلا سوشل ٹیم کو ڈکٹیٹ کرواتے ہیں۔