بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما اور انسانی حقوق کے ایوارڈیافتہ کارکن سمی دین بلوچ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو دنوں کے اندرکراچی سے جبری لاپتہ کئے گئے طلبا کو رہا نہیں کیا گیا توسخت احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران لاپتہ طلبا کے فیملی ممبران بھی موجود تھے۔
سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی بلوچ آپ کے سامنے پریس کانفرنس کرنے آتا ہے، یقیناً آپ کو پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک بار پھر کسی معصوم بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلوچستان کی صورتحال ایسی ہے کہ یہاں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب کوئی بلوچ جبری گمشدگی کا شکار نہ ہوتا ہو۔ آج بھی ہم ایک اندوہناک واقعہ آپ کے سامنے رکھنے آئے ہیں تاکہ آپ کے ذریعے ہماری آواز حکامِ بالا اور دنیا تک پہنچ سکے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ پچھلی دو دہائیوں سے جاری ہے، لیکن اب یہ ظلم بلوچستان کی حدود سے نکل کر سندھ، پنجاب اور وفاقی علاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ کراچی، اسلام آباد، اور پنجاب کے دیگر شہروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیاں سب کے سامنے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ گزشتہ شب، تقریباً رات کے ایک بجے چند خفیہ لوگوں نے کراچی میں مسکن میں ایک فلیٹ میں چھاپہ مارا جہاں تعلیم کے سلسلے میں ریائش پزیر چار بلوچ طالبعلموں کو حراست میں لیکر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے دو طلبہ پہلے بھی اسی جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور جس طرح پہلے بھی دو طلبہ کو سیکیورٹی کے اہلکاروں کے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہمیں یقین ہیکہ اس بار بھی ان لوگوں کو سیکیورٹی کے خفیہ اداروں نے حراست میں لیکر گمشدہ کیا ہے۔
سمی بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے چار طالبعلموں کے نام یہ ہیں گمشاد ولد غنی (ایم فل، شعبہ فلسفہ، کراچی یونیورسٹی)، دودا الہی ولد الہی (ششم سمسٹر، شعبہ بین الاقوامی تعلقات، کراچی یونیورسٹی)، مزمل ولد عبدالغفار (ششم سمسٹر، شعبہ فلسفہ، کراچی یونیورسٹی)، معراج ولد گمشاد (کراچی یونیورسٹی سے حالیہ گریجویٹ، ایم فل میں داخلے کے خواہشمند ہیں ان کے علاوہ، ایک اور نوجوان اسماعیل ولد ابراہیم، جو بلوچستان کا رہائشی ہے اور دبئی میں روزگار کے بعد حال ہی میں کراچی پہنچا تھا، اسے بھی عین اسی وقت حسن اسکوائر سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام طالبعلم بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی تعلیم کے لیے کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے دودا الہی اور گمشاد غنی پہلے بھی جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب ایک بار پھر ان پر یہ ظلم دہرایا گیا ہے۔
سمی دین بلوچ نے آخر میں کہا کہ ہم ان تمام طالبعلموں اور اسماعیل ولد ابراہیم کی فوری اور محفوظ بازیابی کی اپیل کرتے ہیں۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ان طلبہ کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے۔ اگر آئندہ دو دنوں کے اندر ان نوجوانوں کو رہا نہ کیا گیا تو ہم اپنے سخت احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔