الجزیرہ کے ایک رپورٹر ریسل سردار عطاس نے ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں سے رپورٹنگ کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ حکومت کے ملک بھر میں کنٹرول کھونے کے آثار دیکھ کر عوام اب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
لوگ ریاستی سہولیات اور سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ان مجسموں کو گرا رہے ہیں جو حکمران خاندان کی علامت سمجھے جاتے ہیں، جن میں صدر بشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے مجسمے بھی شامل ہیں۔
دمشق کے قریب جھڑپیں شدت اختیار کر رہی ہیں، اور یہ لڑائی دارالحکومت سے تقریباً 10 کلومیٹر (6 میل) کی دوری پر جاری ہے۔
اگرچہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مخالف قوتیں دمشق کے اتنے قریب پہنچ چکی ہیں، لیکن عوام چھوٹے قصبوں میں بغاوت کرتے ہوئے ان پر قبضہ کر رہے ہیں، جو دارالحکومت کے گرد موجود ہیں۔
ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ دمشق کے جنوبی محلوں میں کچھ سرکاری فوجیوں کو اپنی پوسٹیں چھوڑتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے، جو حکومت کی گرفت مزید کمزور ہونے کی نشاندہی کرتا ہے.
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ عراق اور شام کے سرحدی شہر القائم کے میئر، ترکی المحلوی، نے تصدیق کی ہے کہ شام کے تقریباً 2000 فوجی پناہ کے لیے سرحد عبور کر کے عراق میں داخل ہو گئے ہیں۔
ترکی المحلوی نے رائٹرز کو بتایا کہ ان فوجیوں میں سے کچھ زخمی ہیں اور ان کا علاج عراق میں جاری ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے شام میں جاری تنازع کے دوران امن کے قیام کی امید ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہماری خواہش ہے کہ ہمارا پڑوسی شام وہ امن اور سکون حاصل کرے جس کا وہ 13 سال سے خواب دیکھ رہا ہے۔ شام جنگ، خون اور آنسوؤں سے تھک چکا ہے۔
اردگان نے مزید کہا کہ شامی عوام اپنے وطن میں آزادی، سلامتی، اور امن کے مستحق ہیں اور ترکی مستقبل قریب میں ایک مستحکم شام دیکھنے کی توقع رکھتا ہے۔
یہ بیان اردگان نے جنوب مشرقی شہر غازیانتپ میں ایک خطاب کے دوران دیا، جہاں 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد لاکھوں شامی باشندے پناہ گزین کے طور پر پہنچے تھے۔
اردگان نے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ خانہ جنگی کے آغاز سے ہی الاسد کے خلاف مزاحمت کے حامی رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اردگان نے الاسد سے مفاہمت کی کوشش کی، لیکن انہوں نے الزام عائد کیا کہ الاسد تعاون کرنے میں ناکام رہے ہیں۔