بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5642 دن ہو گئے ۔
بی ایس او کے سابقہ چیئرمین چنگیز بلوچ، موجودہ چیئرمین جیئند بلوچ،حسیب بلوچ اور ساتھيوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کئی برسوں سے جاری ہے یہ بلوچستان میں چھٹا فوجی آپریشن ہے جو جو ایک انوکھے انداز میں (2002)سے تاحال جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری اغوا ہوکر ریاستی ٹارچرسیلوں میں مختلف اذیتیں سہ رہے ہیں اور اسی دوران کئی ہزار بلوچ فرزندوں کو ماورائےآئین قانون شھید کیاگیا ہے جن کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ توتک۔خضدار میں سینکڑوں لاپتہ افراد کی اجتماعی قبروں کی لاپتہ بلوچوں کی لاشیں برآمد ہونا قابض کی وحشیانہ فطرت کی منہ بولتاثبوت ہے ۔ریاست پاکستان اپنی رٹ کو قائم کرنے کےلیئے ہرقسم کے ہتھکنڈے بلوچ قوم پرآزمارہی ہے تاکہ بلوچ قوم کو زیر کرکے بلوچ قوم کی نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار جاری رکھ سکے لیکن بلوچ قوم کےلیئے کبھی یہ بات قابل قبول نہیں رہی ہے۔
ماماقدیر بلوچ نے کہاکہ شھدا کےپاک لہو کے بدولت دنیاکی توجہ اپنی طرف مبذول کرچکاہے۔ اور انسانیت کے دعویداروں کو یہ پیغام دے رہے ہے بلوچ مر تو سکتا ہے مگر زندہ رہتے ہوئے انسانيت کو رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ 15نومبر کوعلی الصبح بولان میں پاکستانی فوج سے آپریشن کرکے اپنے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی اندھادھند شیلنگ سے بلوچ فرزندوں کو شھید کر دیا جبکہ کئی بے کناہ بلوچوں کو جبری اغوا کرکے اپنے ساتھ لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بلوچ فرزندو کی شھادت جبری اغوا نماگرفتاریوں کے خلاف پورے قوم غم غصہ کا جزبہ پایاگیا۔ تمام سیاسی پارٹيوں سول سوسائٹی اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں اسے ریاستی بربریت کا تسلسل قرار دے کر شھدا کو سرخ سلام پیش کیا جنہوں نے انسانيت کے خاطر اپنے قومی روایت کو بر قرار رکتے ہوئےایک نئی دنیا کی تعمیر نو کےلیے جام شھادت کی اور تاریخ میں ایک عظيم رتبہ پاگئے۔