راولپنڈی سے پاکستانی فورسز ہاتھوں 10 بلوچ طلباجبری لاپتہ

0
29

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہراور پاک فوج ہیڈ کوارٹر راولپنڈی سے فورسز وخفیہ اداروں نے 10 بلوچ طلباکو ان کے رہائشی اپارٹمنٹ سے حراست میں لیکر جبری طور پرلاپتہ کردیا ہے۔

اس سے قبل بھی اسلام آباد و پنجاب کے دیگر شہروں سے فورسز ہاتھوں متعدد بلوچ طلبا جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے ہیں جن کا کیس اسلام آباد ہائیکورٹ سے برسوں سے جاری ہے۔

گذشتہ روز راولپنڈی سے جبری لاپتہ کئے گئے 10بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کی تصدیق بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد نے کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ کل رات سے 10 بلوچ طالبعلم آئی جے پی میٹرو اسٹیشن راولپنڈی میں اپنے رہائشی فلیٹ سے جبری لاپتہ ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ جبری اغواء شدہ تمام طالبعلم نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالبعلم ہیں، جن کے آج میڈ ٹرم امتحانات ہونے تھے لیکن وہ صبح پیپر دینے نہیں پہنچے تو انکے ساتھی طالبعلموں نے ان کو فون پہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا تب طلباء کلاس فیلوز انکے فلیٹ گئے تو وہ وہاں پہ بھی نہیں تھے اور انکے رومز میں سامان بکھرے پڑے تھے۔

بلوچ کونسل اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے طلباء کے آواز کو دبایا نہیں جا سکتا ہے اور ہم کمزور نہیں ہوں گے، ہم اس حوالے سے اپنے آگے کے لائحہ عمل کا جلد اعلان کریں گے۔

جبری لاپتہ طلبا کی شناخت سالم عارف ولد عارف علی سکنہ تربت کیچ( بی بی اے چھٹا سمسٹر ) بالاچ فدا ولد فدا احمد سکنہ تربت کیچ( بی بی اے آٹھویں سمسٹر ) خدا داد ولد عبدالقادر سکنہ دشت ڈڈے کیچ ( آئی آر آٹھویں سمسٹر) خلیل احمد ولد سومار سکنہ تیرتیج آواران( آئی آر ساتویں سمسٹر) حمل حسنی ولد سید محمد سکنہ آواران( آئی آر ساتویں سمسٹر ) خلیل احمد ولد اقبال سکنہ ڈنڈار( آئی آر آٹھویں سمسٹر) بابر عطا ولد عطا محمد سکنہ پنجگور( آئی آر ساتویں سمسٹر) نور مہیم ولد مہیم سکنہ پنجگور( آئی آر پانچویں سمسٹر ) افتخار اعظم ولد محمد اعظم سکنہ آواران( ایجوکیشن میں ساتویں سمسٹر ) احسام ولد اکبر سکنہ پنجگور (آئی آر آٹھویں سمسٹر) کے ناموں سے ہوگئی ہے ۔

https://twitter.com/MahrangBaloch_/status/1852349555259686965

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ و انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر راولپنڈی سے 10 بلوچ طلبا کی جبری گمشدگی کو بلوچ نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 10 نوجوان، پڑھے لکھے بلوچ نوجوانوں کو گزشتہ رات پاکستان کے دل سے ان کے اپارٹمنٹ سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا، اسلام آباد کے بالکل قریب، وہ دارالحکومت جہاں میڈیا، سول سوسائٹی، آئی این جی اوز، وکالت گروپ، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور غیر ملکی مشن مقیم ہیں۔

انہوںنے کہا کہ خفیہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بلوچ عوام کے روشن دماغوں کو ان سب کے سامنے اغوا کیا۔ اب ذرا تصور کریں کہ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے کیا ہو رہا ہے، جہاں نہ کوئی میڈیا ہے، نہ کوئی فعال سول سوسائٹی ہے، نہ حقوق کے گروپ ہیں اور نہ ہی کوئی این جی اوز۔ جب میں بار بار کہتا ہوں کہ بلوچ نسل کشی ہورہی تو یہی وجہ ہے کہ بلوچوں میں سے بہترین افراد کو لاپتہ، قتل یا برسوں تک عقوبت خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ اور اب یہ تشدد اسلام آباد تک پہنچ گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here