سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوہزارسات میں وکیلوں کی ایک تحریک شروع ہوئی تھی، وکلا تحریک صرف پاکستان نہیں دنیا کی تاریخ میں سنہرا باب ہے، آج بھی ہم وہی وکیل ہیں، ہم نے کہا تھا ہمارا ہاتھ ہوگا اور تمہاری گردن ہوگی، ہمارا پیغام اس وقت کے ڈکٹیٹر کے لیے تھا، اس وقت ایک جرنیل مدمقابل تھا۔
ا ن کا کہنا تھا کہ اب جو معاملہ ہے سب چھپ کر ہورہا ہے۔ہم نے چھپ کر وار کرنا نہیں سیکھا ہے، جو ترامیم لائی جارہی ہیں وہ آئین کے چہرے پر کالے دھبوں کی صورت نظر آئیں گی۔
علی احمد کرد نے کہا کہ لولا لنگڑا آئین کسی ایک شخص کو انصاف نہ دے سکا، کراچی بار کے سالانہ ڈنر میں قاضی فائز عیسیٰ کے احترام میں تقریر نہیں کی تھی، آج کہتا ہوں ہم سے غلطی ہوئی، بلوچستان سے جو جج سپریم کورٹ گئے وہ جج کہلانے کے حقدار نہیں، سندھ کی تاریخ کا دلدادہ ہوں جہاں صوفیا کرام اور بڑی بڑی شخصیات گزری ہیں، یہ اجرک اگر تمہارے سینے میں ہے کوئی مائی کا لال ترمیم نہیں لاسکتا ہے،
انہوںنے کہا کہ یہ پارلیمان کے ممبر ہیں کہ جنہوں نے ترمیم کا مسودہ تک نہیں دیکھا اور ہاتھ پہلے سے کھڑے کیے ہوئے ہیں ہم ترمیم کے حق میں ہیں، آئین میں ترمیم ساری دنیا دیکھے گی ہم یہ ترمیم نہیں کرنے دیں گے، پردوں کے پیچھے چھپی اسٹیبلشمنٹ بھی اسکو منظور نہیں کروا سکتی۔