بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ کو 5664 دن ہوگئے ۔
تربت سے صحافی عبدالستار محمد زئی، ثاقب بلوچ، ثناء بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی ۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود کو مخاطب ہوکر کہا کہ بلوچ دانشوروں اور طالب علموں کا جبری اغوا اور قتل ہونا، ان کی درس گاہوں کو تباہ کرنے کاسلسلہ ہو یا ان کی کتابوں کو جلا نے کی کوششیں، وہ جمہوری انداز میں اپنا اصل ہتھیار شعورآگاہی کو سمجھتے ہیں ،ہم چاہتے ہیں کہ مہذب انداز میں اس مسئلہ کو حل کیاجائے اور بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقين کے فیصلے کا احترام کیاجائے مگر آپ ہی بتائیے ہزاروں بلوچوں کو غائب کرکے کیارست یہ پیغام نہیں دےرہی کہ وہ انہیں یونیورسٹیوں اورکالجوں کے بجائے محلوں اور گھروں میں بھیجنا چاہتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست حق کی آواز کو دبا کر یہ سمجھتی ہے کہ اس آواز کی گونج دنیاتک نہیں پہنچ سکےگی ،وہ اس مسئلے کا حل جمہوری انداز میں نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ اپنے ظلم وبربریت اور عسکری قوت کے غرور میں یہ سمجھتی ہے کہ خون کی ندیاں بہاکر وہ بلوچوں کو ان کی جمہوری حق سے محروم کرسکتی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہاکہ میں ایک انسان ہوں مجھے انسانيت سے محبت اور انسان دوستی کادرس دیاہے ،ظلم وزیادتیوں ،جبری گمشدگیوں اور ان کی شھادتوں پر خاموش بھی تونھیں بیٹھ سکتاگوکہ اپنی آواز پہنچانے کےلیے کسی اور کوتکلیف نہیں دےسکتا لیکن میں اپنے آپ کو تو تکلیف دےسکتاہوں اور یہ میرا حق ہے ،میں نے فیصلہ ہے کہ میں تب تک خود کو تکلیف سے گزاروں گا جب تک کہ مہذب دنیاہمارے مسائل پر توجہ نہیں دیتی ۔ تمام جبری لاپتہ افراد کو بازیاب نہیں کراتی، اپنی آخری سانس تک اپنا یہ خاموش پر امن جدوجہد جاری رکھوں گا، میں پوری دنیا پر واضع کرنا چاہتاہوں کہ ہم پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اس لیے آج کسی اور کی جان لینے کے بجائے میں اپنی جان اپنی قوم پر قربان کرنے کےلیے بیٹھا ہوں۔