پاکستانی پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کیلئے پی ٹی آئی ارکان کو نوٹی فائی کرنیکا حکم

0
34

پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دینے کے بارے میں کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو اس کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ کو سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی قرار دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے احکامات جاری کیے ہیں کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو نوٹی فائی کرے۔

پیر کو جاری ہونے والا تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریرکیا ہے۔

تفصیلی میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ ہے کہ آزاد امیدوار بھی تحریکِ انصاف کے امیدوار تھے۔ پی ٹی آئی کے مطابق منتخب ہونے والے افراد کو ووٹرز نے ان کو تحریکِ انصاف کا امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیے۔

سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر بھی وضاحت کر دی ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔ عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا۔ آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس نے 2024 کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی یا حاصل کیں۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے 80 میں سے 39 ارکانِ اسمبلی کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا۔ الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ باقی 41 ارکانِ قومی اسمبلی کے 15روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹی فائی کرے۔ عوام کا ووٹ جمہوری طرزِ حکمرانی کا اہم جز ہے۔ جمہوریت کا اختیار عوام کے پاس ہے۔

تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے دو ججوں کے اختلافی نوٹ کو غیر موزوں قرار دیا گیا ہے۔

فیصلے میں اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ بھاری دل سے بتا رہے ہیں کہ دو ساتھی ججوں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ ساتھی ججوں کے تین اگست کے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کے ججوں کے حوالے سے مناسب نہیں ہیں۔ ان ججوں نے کہا ہے کہ ہمارا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی ہے۔ بینچ کے ارکان کی حیثیت سے وہ قانونی طور پر حقائق اور قانون سے اختلاف کر سکتے ہیں جب کہ ساتھی جج مختلف رائے دے سکتے ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ساتھی جج دوسرے کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے ہیں۔ رائے دینے کے لیے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرے ججوں کی رائے میں کیا غلط ہے جس طریقے سے دو ججوں نے اختلاف کیا وہ غیر شائستہ ہے جس طریقے سے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے اپنے فیصلے میں جو لکھا وہ انہیں زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔

فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا۔ آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا حالاں کہ اس کا بنیادی کام صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے اور وہ فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔

فیصلے کے مطابق رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے۔ رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقۂ کار سے متعلق ہے۔ انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیںْ انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو۔ رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے۔ انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیے جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔ واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔

فیصلے کے مطابق جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔ انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی۔ الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامے میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدِ نظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ پارٹی کے اندرونی معاملے پر شہریوں کے ووٹ دینے کے بنیادی حقوق کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلہ نظرِ ثانی میں زیرِ التوا ہے اس لیے اس پر رائے نہیں دے سکتے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا اور مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر مختصر فیصلہ سنایا تھا جس کا اب تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے 13 ججوں میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔ چیف جسٹس کے مطابق مختصر فیصلہ بھی جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا۔

جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا تھا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here