پاکستان کے مقبوضہ جموں کشمیر کے علاقے باغ میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے زیراہتمام “عوامی مزاحمت احتجاج سے اختیار تک مگر کیسے؟ “کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینار میں وطن دوست اور ترقی پسند تنظیموں کی قیادت کے علاؤہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران، وکلاء، تاجران اور طلبہ نے شرکت کی اور موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
واجد علی ایڈووکیٹ، لیاقت حیات، صابر کشمیری، سجاد افضل،اسلم وطنوف، عابد شاھین، عثمان کاشر، اظہر رشید،کرن کنول اور ماریہ خان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی تحریک کی جزوی کامیابی کا سہرا عوام کی منظم جدوجہد کے سر سجتا ہے، عوامی تحریک کسی بھی عہد میں ہو اس کے سامنے عوامی احتجاج سے اختیار تک رسائی کا سوال رہتا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ موجودہ برس کینیا، بنگلہ دیش سری لنکا کے سماجوں میں ابھرنے والی تحریکوں کے مطالعے سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ احتجاج کو اختیار تک پہنچانے کے لیے ایک منظم انقلابی پارٹی کا ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اختیار کا سوال دراصل حق ملکیت اور سیاسی اقتدار کیساتھ جڑا ہوتا ہے اور محکوم سماجوں میں یہ سوال قبضہ گیریت سے نجات کیساتھ بھی جڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری موجودہ تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے چارٹر آف ڈیمانڈ کو ایڈوانس کرنا ضروری ہے، حق ملکیت کے سوال اور آہین ساز اسمبلی کے قیام کے سوال کو عوام میں زہر بحث لانے کی ضرورت ہے،تاہم سیمینار میں ایک موقف یہ بھی سامنے آیا کہ ابھی معاشی سوال کو ہی لیکر تحریکی سفر کو آگے بڑھایا جائے، سیاسی سوال کو اٹھانا اس وقت ضروری نہیں ہے بلکہ سیاسی سوال کو منظم طریقے سے اٹھانے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔
مقرین نے کہا کہ ایک بہترین وقت میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی نے ایک جاندار بحث کا آغاز آج کے اس سیمینار سے کیا ہے، اس سلسلے کو ہمیں مل کر آگے بڑھانا چاہیے اور اس کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو تمام اضلاع میں پروگرامات منعقد کر کہ اس بحث کو عوام کی نچلی پرتوں تک لیکر جائے۔
ان کا کہناتھا کہ موجودہ عوامی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ موجودہ تحریک میں انقلابی، وطن دوست اور ترقی پسند تنظیموں کے کیڈر نے بہت متحرک رول دیا ہے اور اس متحرک رول کی بنیاد پر سیاسی کارکنوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بھی قائم ہوئی ہے جسے مستقل عمل کے ذریعے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، تربیتی عمل اور کتاب سے رہنمائی بہت ضروری ہے۔
انہوںنے کہا کہ بلوچ تحریک کا گہرا مطالعہ ضروری ہے، بلوچ تحریک سے سیکھنے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچوں نے کتاب کی رہنمائی میں اپنی تحریک کو ایسے مرحلے میں داخل کر دیا ہے جو فتح کی طرف جاتا ہے، مزیدبرآں ہمیں نظریاتی طور پر تربیت یافتہ انقلابی کیڈر، اور تحریک کی رہنمائی کے لیے دانشوروں کی ضرورت ہے تا کہ فکر و عمل کو مربوط کر کہ سفر آگے بڑھایا جا سکے۔ مستقبل کی پیش بندی پر زیادہ سے زیادہ مکالمے اور مباحث جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین صابر کشمیری ایڈووکیٹ، نیشنل عوامی پارٹی کے سابق صدر لیاقت حیات، سروراجیہ انقلابی پارٹی کے صدر سجاد افضل، جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل اظہر رشید، چیف آرگنائزر خورشید اکاش، ضلعی جنرل سیکرٹری باغ ماریہ خان،JKLF کے مرکزی رہنما شعیب خالد، نیشنل عوامی پارٹی کے عباس کاشر، وکلاء بار کے ممبران فرخ چغتائی ایڈووکیٹ،ناصر قیوم ایڈووکیٹ، عاشر شجاع ایڈووکیٹ، آل آزاد کشمیر انجمن تاجران کے سنئیر نائب صدر افضل کشمیری، آل آزاد کشمیر گڈز ٹرانسپورٹ کے صدر ذوالفقار بھٹو، متحرک تاجر رہنما ہارون راجا، یاسر بیگ، آصف بیگ اور دیگر نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیرمین اسلم وطنوف، سیکرٹری جنرل واجد علی ایڈووکیٹ، سیکرٹری اسٹڈی سرکل ماجد خان، چیف آرگنائزرشہزاد حسرت، ممبر سی سی شاویز اقبال، یو ائے ای برانچ کے رضوان اشرف، کامریڈ وحید، پونچھ برانچ کے آرگنائزر شان جاوید، ضلعی سیکرٹری باغ برانچ کرن کنول، صدر برانچ اخلاق احمد، ذوہیب گلزار، فرحان زاھد،اور دیگر نے بحث میں حصہ لیا۔