بلوچ کو تنہا لڑنا ہوگا | ذوالفقار علی زلفی

0
57

پنجاب کے “دانش وروں” اور سوشل میڈیا جانبازوں کی جانب سے عموماً یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ بلوچ جہدکار دیگر اقوام بالخصوص پنجابی کے ساتھ اشتراک عمل کریں ـ۔

اول : ایسا مطالبہ کرنا بے رحمی اور منافقت ہے۔ ـ بلوچ جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اگر کسی کو جابر، جابر لگتا ہے اور وہ اس کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتا ہے پھر اسے بلوچ سے مطالبہ کرنے کی بجائے اس کے ساتھ جُڑ جانا چاہیے نئیکہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مطالبہ کرتا پھرے۔

ـ دوم : بلوچ قومی تحریک ہو یا شہری حقوق کی تحریک، دیگر اقوام بالخصوص پنجاب اس کے ساتھ تا قیامت اشتراک نہیں کرے گا ـ ۔

پاکستان کے فوجی غلبے پر مبنی نظام میں پنجاب سب سے بڑا بینیفشری ہے۔ ـ پنجاب کی آبادی لگ بھگ 12 کروڑ ہے جو بلوچستان کی 2 کروڑ پر مبنی آبادی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔ ـ پنجاب کے خام وسائل اس کی آبادی کا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتے ـ۔ پنجاب کی فوج دیگر اقوام بالخصوص بلوچ کے وسائل کی لوٹ مار کرکے اس خام مال کو پنجاب لے جاکر اسے دولت میں بدلتا ہے جس سے پنجاب کی معاشی گاڑی آگے بڑھتی ہے۔ ـ فوج پنجاب کی لینڈلاک سرزمین کو سندھی و بلوچ ساحل پر قبضہ کرکے اسے دنیا سے رابطے کے مواقع فراہم کرتی ہے ـ پھر ان مواقع کو پنجاب کی ترقی اور اس کی دیوہیکل آبادی کو سہارنے کے لئے استعمال کرتی ہے ـ۔

پنجابی مڈل کلاس کو یہ نظام سوٹ کرتا ہے ـ وہ پنجاب کے اندرونی غیر مخاصمانہ تضادات پر بعض اوقات فوج سے الجھ جاتا ہے مگر یہ الجھاؤ محض لوٹی گئی دولت کی از سر نو تقسیم تک ہی محدود ہوتی ہے ـ جس کی دولت لوٹی جا رہی ہے اور اس لوٹ مار کی جو قیمت وہ ادا کر رہا ہے اس سے پنجابی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کو کوئی سروکار نہیں ہے ـ۔

پنجاب کی فوج اور اس کے زیرِ انتظام چلنے والے نام نہاد فلاحی و کاروباری ادارے پنجابی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو روزگار فراہم کرنے کا وسیلہ ہیں ۔ـ کراچی، بن قاسم اور گوادر بندرگاہوں سمیت سندھ اور بلوچستان کے بیشتر سامراجی منصوبوں اور توانائی کے ذخائر کو کنٹرول کرنے والے اداروں میں بھی پنجاب کی بے روزگار آبادی کو کھپایا جاتا ہے۔ ـ پاکستان کی اندرونی سول بیوروکریسی سمیت دنیا بھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں بھی پنجابی آبادی کو کھپایا جاتا ہے۔ ـ اسی طرح جس اسٹریٹجک جغرافیے کے نام پر پنجاب کی فوج دنیا کو بلیک میل کرکے فنڈز اکھٹی کرکے پنجاب پر خرچ کرتی ہے اس جغرافیے میں بلوچستان اپنے 900 میل طویل ساحل کے ساتھ ساتھ 45 فیصد زمین بھی جبراً شیئر کرتا ہے ـ ۔

بلوچستان کی کم آبادی نہ پاکستان کی نام نہاد قومی اسمبلی پر اثرانداز ہوسکتی ہے اور نہ ہی پنجابی غلبے پر قائم پاکستانی میڈیا کو وہاں سے ریٹنگ یا اشتہار ملنے کی توقع ہوتی ہے ۔ـ ایسے میں کون احمق ہوگا جو بلوچستان کے شہری حقوق یا بلوچ قومی تحریک کی حمایت کرکے اپنی فوج سے پنگا لے اور اپنی عاقبت خراب کرے؟ ـ۔

سندھی طاقت کے اصلی مرکز یعنی فوج میں کوئی موثر نمائندگی نہیں رکھتی ـ تاہم پنجاب کے بعد دوسری سب سے بڑی آبادی اور ایک متحرک شہری مڈل کلاس رکھنے کی وجہ سے وہ سودے بازی کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہے۔ ـ سندھی جو مل رہا ہے اس پر قناعت کرلو کی پالیسی پر کاربند ہے۔ ـ ضیا دور میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران تن تنہا مار کھانے کے بعد سندھی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یوٹوپیائی جمہوریت اور شہری حقوق کے حصول کے لئے شہری سندھ اور پنجاب کی فوج کے درمیان سینڈوچ بننے سے بہتر ہے دستیاب وسائل سے گزارہ کرنے کی راہ تلاش کی جائے۔ ـ ایسے میں سندھی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمسائے میں جاری ایک خوف ناک جنگ میں ایک ایسے کم زور ہمسائے سے جڑ جائے جس کی آبادی و بربادی سے اس کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے ایک خام خیالی ہے۔
ـ
بابا خیر بخش مری نیشنل عوامی پارٹی کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا کرتے تھے۔ ـ صورت خان مری بھی مجموعی طور پر نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچ دانش کی مہلک غلطی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ـ سردار عطا اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو ہی دو ایسے اکابر تھے جنہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی سیاسی وراثت کو آگے بڑھایا پھر وقت نے ثابت کیا کہ ان دونوں رہنماؤں کی رائے درست نہیں تھی ۔ـ بلوچ رہنماؤں میں بابا مری اور دانش وروں میں صورت خان مری ہی ایسے تھے جو پاکستانی سماج کا درست تجزیہ کرکے معقول نتیجے تک پہنچے ـ ۔

صورت خان مری نیپ کے حوالے سے متواتر کہتے رہے کہ پشتون بلوچ اتحاد ساحل پر لکیریں کھینچنے کے مترادف ہے۔ ـ بقول مری؛ پنجابی کے بعد پاکستان میں پشتون دوسرا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ ـ فوج سمیت سول بیوروکریسی میں بھی وہ بھرپور اور موثر نمائندگی رکھتی ہے۔ ـ پشتون ٹرکیں افغان بارڈر سے کراچی تک چلتی ہیں۔ ـ دنیا میں کراچی آبادی کے لحاظ سے ان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ـ صورت خان مری کی اس رائے کے بعد پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے ۔ـ اب تو لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر بڑے شہروں میں پشتون قابلِ ذکر آبادی اور جائیداد کی مالک ہے ـ۔

صورت خان مری کے مطابق پشتون کسی صورت پاکستان کے جبری جغرافیے کی حدود سے نکلنے کے عمل میں شریک نہیں ہوسکتا ۔ـ پاکستان میں گہرائی تک اس کے معاشی مفادات پیوست ہیں ۔ـ ملٹری و سول بیوروکریسی میں اس کی دوسری پوزیشن اس کو فیصلوں و پالیسیوں کو موڑنے یا اپنے حق میں رکھنے کی صلاحیت دیتی ہے ۔ـ اس تناظر میں پنجابی پشتون تضاد غیر مخاصمانہ اور قابلِ حل ہوجاتا ہے۔ ـ طاقت کے مراکز سے دور پشتون قبائلی علاقوں میں شہری حقوق کی جدوجہد کی حد تک وہ بلوچ کے ساتھ اشتراک میں آسکتے ہیں مگر اپنے پیوستہ مفادات کی قیمت پر وہ زیادہ دور تک ساتھ نہیں دے سکتے ـ۔

نیشنل عوامی پارٹی کی صورت قیادت پشتون کے حوالے کرکے بلوچ نے ایک ایسی غلطی کی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہا ہے ۔ـ پشتون ؛ گریٹر پشتونستان کا نعرہ پنجابی کو بلیک میل کرنے اور لوٹی گئی دولت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے لگاتا ہے۔ ـ اسے پسماندہ افغانستان سے الحاق میں ذرہ بھر دلچسپی نہیں ہے ـ۔

بلوچ کا پاکستان میں کوئی معاشی مفاد نہیں ہے ـ ۔نہ وہ فوج اور سول بیوروکریسی میں کوئی نمائندگی رکھتی ہے اور نہ ہی دور دور تک اس کا کوئی امکان ہے۔ ـ بلوچ اپنے خام مال اور طویل ساحل کو اپنے اجتماعی مفاد میں استعمال کرنے کی قوت سے بھی محروم ہے۔ ـ کم اور بکھری ہوئی آبادی پر مشتمل بلوچ دیہی سماج مکمل طور پر لاوارث ہے ـ فلسطین کی طرح ـ۔

بلوچستان میں ہر مہینے اوسطاً تین درجن افراد جبری گم شدگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ـ یعنی روزانہ ایک فرد جبراً لاپتہ ہوتا ہے ۔ـ یہ واضح طور پر نسل کشی ہے ـ اس سنگین جرم پر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی مگر مہینوں میں ایک پنجابی بھی بلوچستان میں قتل ہوجائے تو بلوچ کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔ ـ 14، 14 سالوں تک جبری گم شدہ پیارے کی بازیابی کی جدوجہد میں گھلتی جوانیوں تک کے منہ میں مائک گھسیڑ کر پوچھا جاتا ہے “کیا آپ پنجابی قتل کی مذمت کرتی ہیں؟” ـ۔

اس پوری بحث کا ماحصل یہی ہے کہ بلوچ اپنی جدوجہد میں تنہا ہے اور تنہا ہی رہے گا۔ ـ چاہے یہ شہری حقوق کی بازیابی کی تحریک ہو یا قومی آزادی کی جاں گسل جدوجہد ۔ـ وہ بنا کسی مدد و حمایت کی امید رکھے اپنی جدوجہد کو اپنے بل پر کامیاب بنانے کی کوشش کرے ۔چاہے اس کے لئے اسے مزید ہزار سال تک لڑنا پڑے ۔
ـ
بلوچ اپنی کم اور بکھری ہوئی آبادی کو اپنی طاقت بنانے پر توجہ دے ۔ـ ایک بکھری ہوئی قوم کی منظم جدوجہد کے سامنے امریکہ بھی ٹک نہ پایا اور اسے ویت نام سے بھاگنا ہی پڑا۔ ـ پنجابی کو بھی جلد یا بدیر اپنا بوریا بستر لپیٹنا ہی ہوگا۔ ـ اس کے لئے مگر اسی صبر و استقامت کے ساتھ لڑنا ہوگا جس طرح گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ لڑتا آرہا ہے ـ۔

بلوچ کم زور سہی، تہی دست سہی مگر وہ ایک وسیع سرزمین اور طویل ساحل کا مالک ہے۔ ـ وہ تاریخ میں جڑیں رکھنے والی ایک قوم ہے۔ ـ یہ دولت اور شناخت اسے عالمی نقشے پر ایک فریق بناتے ہیں ـ ۔اس کی اجتماعی مرضی و منشا کے بنا کم از کم دنیا کے اس خطے میں کسی پرامن اقتصادی سرگرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ـ ۔

معروضی حالات ایک سے نہیں رہتے ۔ـ تبدیلی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ـ بدلتے عالمی حالات میں جب بھی دنیا کو ایک فریق کی حیثیت سے بلوچ سے سودے بازی کرنے کی ضرورت پیش آئے تب بلوچ اپنی قومی آزادی کے مطالبے کے ساتھ ایک مضبوط پوزیشن پر ملے ـ ۔تاہم ابھی وہ وقت نہیں آیا ـ۔

دنیا لاکھ ہمیں نسل پرست، دہشت گرد، اجڈ، جاہل، گنوار، پراکسی وغیرہ وغیرہ کی گالی دے ـ ان سب سے بے نیاز ہوکر مسلح جدوجہد کو قومی آزادی کے صاف اور شفاف نظریے کے ساتھ مزید پھیلایا جانا چاہیے ۔ــ یہ دنیا اگر مہذب ہوتی تو آج فلسطینی بچے بے دردی سے نہ مارے جا رہے ہوتے ـ۔ غیر مہذب دنیا سے تہذیب کی سند لینے میں ہمیں کوئی دلچسپی ہونی ہی نہیں چاہیے۔ ـ دنیا کے نقشے پر، اقوام کے گلدستے میں، ہم ایک قوم ہیں، اس حقیقت کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی ـ۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here