بی ایس او کراچی زون کی جانب سے کراچی میں بلوچوں کی مستقبل کے عنوان سے ملیر میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔
سیمینارکی صدارت چئیرمین بی ایس بالاچ قادر نے کی جبکہ مھمان خاص بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کے چئیرمین سنگت رفیق تھے۔
سیمینار سےکراچی یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے چئیرمین ڈاکٹررمضان بامری ،بلوچی زبان کے محقق غلام رسول کلمتی،سرگرم سیاسی کارکن کامریڈ حفیظ بلوچ اور حنیف دلمراد نے خطاب کیا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ کراچی بلوچ قوم پرستی اور جدید بلوچ ادب کا مسکن رہا ہے۔بلوچی زبان کی ترقی و ترویج و ادبی سرگرمیوں کی فروغ کیلئے کراچی کا کردار انتہائی اہم ہے، 1951 میں کراچی سے ماہتاک اومان کی اشاعت سے لیکر ادبی انجمنوں کی قیام تک کراچی نے ہمیشہ بلوچی ادب کی ترقی و ترویج کی ہے۔ بلوچ طلباءسیاست کی ابتداء بھی کراچی سے ہوئی جس کے بعد ساٹھ کے دہائی میں بی ایس او کا قیام عمل میں لایا گیا۔ طلباء سیاست ہو یا ماس پارٹی سیاست ان سب کا سیاسی قبلہ ہمیشہ کراچی رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی بلوچوں کی سیاسی شعور اور ادبی سرگرمیوں کا بنجل ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کراچی میں رہنے والے بلوچوں کی اجتماعی شعور و سیاسی بیداری کو ختم کرنے کیلئے مختلف حربوں کا سہارا لیا گیا جس کے تحت یہاں گینگ وار کی صورت میں ڈیتھ اسکواڈ بنائے گئے، سیاسی رہنماؤں اور شعور یافتہ طبقے کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا، ایک ایسے خوف کا فضاء قائم کیا گیا جس کی وجہ سے کراچی میں سیاست اور ادب کی سرگرمیاں ماند پڑ گئے۔ ہزاروں سال سے یہاں آباد بلوچوں کی زمینوں کو زبردستی قبضہ کرکے آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش اب بھی جاری ہے، بحریہ ٹاؤن جیسے استعماری میگا پروجیکٹ کا اصل مقصد ہی بلوچوں کو انکی زمینوں سے بے دخل کرانا ہے۔ انھوں نے کہا مختلف حربوں اور ریاستی ہتھکنڈوں کے باجود بھی کراچی کے بلوچ اپنی بقاء اور قومی شناخت سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ انکی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ انگریز استعمار نے بلوچ گلزمین کو ایک خود ساختہ جغرافیائی لکیر کے ذریعے تقسیم کرکے بلوچوں کی سیاسی قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر اب بھی بلوچ جس جگہ رہتے ہیں انکا درد مشترکہ ہے۔
مقررین نے کہا کہ سنجیدہ علمی تقریبات اور مباحثے کا انعقاد لازمی ہے جس کےذریعے بلوچ قوم میں سیاسی شعور کی بیداری ہوگی۔