بلوچستان میں گذشتہ ماہ 33 افراد جبراً لاپتہ ، 5 ماورائے عدالت قتل کیے گیے،پانک

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے شعبہ انسانی حقوق پانک نے فروری 2024 میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔اس رپورٹ میں بلوچستان کے چیدہ واقعات کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ گذشتہ مہینے جبری گمشدہ افراد کی فہرست بمع کوائف شائع کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق فروری 2024 کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے 33 کیسز رپورٹ ہوئے اور 28 جبری لاپتہ افراد کو ٹارچر سیلز سے رہائی ملی جبکہ مچ میں بلوچ سرمچاروں کے ساتھ پاکستانی فوج کی جنگ کے بعد ، 5 افراد کو حملہ آور قرار دے کر قتل کیا گیا جو دراصل پاکستانی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ تھے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں کیچ اور گوادر میں جبری گمشدگیوں پر لواحقین کے احتجاج، مچ میں بلوچ سرمچاروں اور پاکستانی فوج کے درمیان جنگ کے بعد پاکستانی فوج کے ہاتھوں زیرحراست افراد کا قتل اور بولان میں پاکستانی فوجی جارحیت کے دوران نہتے افراد کے خلاف طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اہم واقعات کی تفصیل بیان کی گئی ہیں۔

کیچ گوادر میں نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور اس پر لواحقین احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے ، پانک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے سوشل میڈیا پر جو واقعات سامنے آتے ہیں ، وہ محض جبری گمشدگی اور غیرقانونی حراست سے رہائی پانے والوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔اس عمل کے نتیجے میں بلوچ سماج کی شعوری و سماجی ترقی کو جو گزند پہنچ رہا ہے اس پر گہری تحقیق اور علمی مشاہدے کی ضرورت ہے۔کسی جبری لاپتہ فرد کی رہائی کے باوجود اس کی سوچ پر پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں کا پہرہ ہوتا ہے۔ ان افراد کو مجبور کیا جاتا ہے ، وہ جبری جلاوطنی اختیار کریں یا پھر بلوچستان میں بلوچ قوم کے خلاف سرگرمیوں میں پاکستانی فوج کی مدد کرکے زندہ لاش بنیں یا اپنے سماج کا لاتعلق حصہ بن کر رہئیں۔

پانک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کیچ میں ڈی بلوچ کے مقام پر کئی دنوں تک جاری رہنے والے احتجاج کو پولیس کی اس یقین دہانی کے ساتھ ختم کیا گیا کہ غیرقانونی حراست میں لیے گئے جبری لاپتہ افراد میں سے اکثریتی نوجوانوں کی گرفتاریوں کا جواز پیش کرنے کے لیے ان کی جھوٹے مقدمات میں گرفتاری ظاہر کی جائے گی۔ستم ظریفی اور بے بسی کی حد ہے کہ لواحقین نے اس ناجائز مطالبے کو بھی تسلیم کیا مگر یہ غیر قانونی کی سزاء کی ایک شکل ہے جس میں لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر جعلی مقدمات میں ملوث کیا جاتا ہے۔

پانک کی رپورٹ میں اسے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے ، رپورٹ کے مطابق ، انسانی حقوق کے اداروں کو ان معاملات کی طرف توجہ کرتے ہوئے بلوچستان کے جیلوں میں قید ان افراد تک جو پہلے پاکستانی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ تھے ، رسائی حاصل کرکے ان کی قانونی مدد کا انتظام کرنا چاہیے۔ ہمیں ’ جبری گمشدگی ‘ کے معاملے کے ان گمشدہ پہلوؤں کو بھی منظر عام پر لانا ہوگا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔پاکستانی فوج اپنے جبر کی شدت سے لوگوں کو انسانی حقوق پر کمپرومائز کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔

پانک کی رپورٹ میں مچ میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے پانچ زیر حراست افراد کے بارے میں کہا گیا ہے ان تمام افراد کے جبری گمشدگی کے ثبوت موجود ہیں۔ کچھ کے لواحقین جبری گمشدگیوں کے خلاف اسلام آباد دھرنے میں بھی موجود تھے۔جن چار لاشوں کی شناخت ہوئی ، ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری کو 2 جولائی 2023 کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا ، اور سوبدار ولد گلزار خان کو ھرنائی بازار سے 9 ستمبر 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا ،جن کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا جبکہ چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زھری سے ہوئی جن کے خاندان کے مطابق انھیں 4 جون 2023 کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے مچ واقعے سے جوڑ کر زیرحراست افراد کا قتل ، پاکستانی فوج کے انگنت کارروائیوں کا تسلسل ہیں۔پاکستانی فوج کے نزدیک ، رحم اور انسانی حقوق جیسے الفاظ بے معنی ہیں۔ قاتلوں کی یہ مشینری تب تک قتل کرتی رہے گی جب تک اسے طاقتور ہاتھوں اور بین الاقوامی مداخلت سے نہیں روکا جاتا۔

پانک کی رپورٹ میں بولان میں پاکستانی فوجی کارروائیوں کی بھی مذمت کی گئی ، ادارہ پانک کے مطابق مچ حملے کو جواز بناتے ہوئے ، پاکستانی فوج بلوچ سرمچاروں کے خلاف ایک وسیع علاقے میں کارروائی کر رہی ہے۔مگر ، اس میں بھی بلوچ سرمچاروں کی بجائے عام آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دو واضح حیثیت میں لڑنے والے مخالفین کے درمیان بھی پاکستانی فوج جنگی قواعد اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کر رہی۔

پانک کے مطابق پاکستانی فوجی کارروائیوں کے دوران علاقوں کا وسیع حد تک محاصرہ کیا جاتا ہے ، معلومات تک رسائی بند کی جاتی ہے اور جب مہینوں بعد رسائی ملتی ہے تو وہاں دردناک کہانیاں ہوتی ہیں۔جبری گمشدگی ، بھوک اور جنسی زیادتیاں کی شکایت ، ہر پاکستانی فوجی کارروائیاں کے بعد کے نتائج ہیں۔ہمیں خدشہ ہے کہ بولان میں جاری فوجی کارروائی کا اختتام بھی انسانیت کے خلاف ایک اور سانحے کے ساتھ ہوگا۔

پانک نے پاکستانی فوج کی ان کارروائیوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے عالمی سطح پر جس طرح جنگوں کے دوراں عام آبادیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے فریقین کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا خیال رکھیں ، بلوچستان کے لوگ بھی انسان ہیں ان کو وہی حقوق فراہم کیے جائیں جو جنگ زدہ خطے میں لوگوں کو مہیا کیے گئے ہیں۔ پاکستانی حکومت پر یہ زور دینا چاہیے کہ وہ ان علاقوں میں عالمی اداروں اور میڈیا کی رسائی ممکن بنائے تاکہ پاکستانی فوج کی کارروائیوں کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچ سرمچار گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں ، ان کے ٹھکانے شہروں اور آبادیوں کے درمیان نہیں ہیں۔باوجود اس کے پاکستانی فوج ہر کارروائی میں آبادیوں کا محاصرہ کرتی ہے اور اس دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایت سامنے آتی ہیں جنھیں پاکستانی حکام نظرانداز کردیتے ہیں۔اس پر خاموشی انسانیت کے وقار کے منافی ہے۔

Share This Article
Leave a Comment