پاکستان کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت طلبی حکم کو پھر سے بالائے طاق رکھ کر پیش نہیں ہوئے ۔
عدالت نے مجبوراًایک بار پھرآئندہ سماعت پر نگران وزیراعظم، نگران وزیر دفاع اور نگران وزیر داخلہ طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نگران وزیراعظم کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نگران وزیراعظم اس وقت کراچی میں ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ نگران وزیروں اور دیگر کو بلایا تھا۔ وہ کہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نگران وزیر دفاع اور وزارت داخلہ بھی مصروف ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کہاں ہیں؟ دریں اثنا سیکریٹری داخلہ عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ سیکریٹری دفاع کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس کیس کی آج 24 ویں سماعت ہورہی ہیں، 2022 کی درخواست دائر ہے اور اس پر کمیشن بنایا گیا تھا، ہمیں 2 سال لگے اپنے ہی شہریوں کو بازیاب کرنے میں جن کے خلاف کوئی کریمنل کیس بھی نہیں ہے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ دہشتگردی تو چھوڑیں، ان کے خلاف تو منشیات، قتل، چوری سمیت کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں، 2 برس میں عدالت کے سامنے ان گمشدہ افراد سے متعلق کوئی دستاویزات یا معلومات شیئر نہیں کیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں آپ نے بیان حلفی دی کہ آج کے بعد کوئی بندہ لاپتہ نہیں ہوگا، اسلام آباد کے ایف سیسکس سے ایک بندہ بغیر ایف آئی آر کے لاپتا ہے، وزیراعظم کو بلانے کا مقصد یہ تھا کہ ریاست کے وزیراعظم اپنے کام میں ناکام کیوں ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اداروں کے خلاف ہمارے پاس چارج ہیں، وزیراعظم، وزیر دفاع، سیکریٹری دفاع، وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ اگر کام نہیں کرسکتے تو عہدے چھوڑ دیں، کچھ دنوں بعد یہ چلا جائے گا تو نیا وزیراعظم یہاں کھڑا ہوگا۔
اٹارنی جنرل نے اس معاملے کو نگران حکومت کی بجائے منتخب حکومت تک دیکھنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جن حکومتوں میں لوگوں کو لاپتا کیا گیا ان حکومتوں کو اس کا جواب دینا چاہیے، منتخب حکومت آئے گی تو از سرنو سے اس معاملے کو دیکھے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ساڑھے 3 سال ایک حکومت تھی، پھر 16 ماہ کی دوسری حکومت تھی اور پھر نگران حکومت مگر ہوا کچھ نہیں، یہاں پر براہ راست اداروں پر الزامات ہیں، جبری گمشدگیوں سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف فیصلے موجود ہیں، اداروں کے افسران تک کو کروڑ کروڑ تک کا جرمانہ کیا گیا مگر کوئی نتائج نہیں آئے۔
سیکریٹری داخلہ سے عدالت نے استفسار کیا کہ سیکرٹری صاحب! آپ کی اتنی اہلیت ہے کہ اس معاملے کو دیکھ سکیں؟ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کا اپنا اپنا کام ہے، انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور (آئی بی) کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی بناتا ہوں، وزیراعظم کو یا وزیروں کو کیا بلانا، جن پر الزام ہے اُن ہی پر کمیٹی بنا دیتا ہوں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیوں نہ جبری گمشدگیوں کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں ایک جرم ڈیکلیئر کردیا جائے؟
کمرہ عدالت میں موجود وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کچھ لوگوں کو بازیاب کرایا گیا مگر فروری میں پھر سے لوگ لاپتا ہوگئے، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی بھی دیا تھا مگر پھر بھی بلوچستان میں لوگ لاپتا ہوئے، جبری گمشدگیوں کی پالیسی اب ریاست کی ہی بنی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے آج کے بعد کوئی بندہ اغوا ہوا تو ذمہ دار سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور انچارج سی ٹی ڈی ہوگا، انہوں نے ایمانداری کے ساتھ بتا دیا کہ وردی والے آئے تھے، کسی ادارے کا نام نہیں لیا۔
عدالت نے نئے لاپتا افراد سے متعلق فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں ڈی جی آئی، ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی بی پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی کی تشکیل کا حکم دوں گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کے اندر کیا ہو رہا ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہیے، جرم، جرم ہی رہے گا، حکومت نگران ہو یا منتخب ہو، جبری گمشدگیوں کی ذمہ داری ریاست پر ہی آتی ہے، پہلے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں پھر پولیس کے حوالے کرتے ہیں اور کہتے کہ عدالت رہا کر دیتی ہے۔
ایمان مزاری نے کہا کہ لاپتا افراد سے متعلق ہم نے سوالنامہ بھی مہیا کیا تھا، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں، قانون سب پر لازم ہے، سب ہنس رہے ہم پر، آج کل بچے بھی ان پر ہنس رہے ہیں، میں بذات خود، یہاں بیٹھے وکیل اور صحافی گھر جاکر اپنے بچوں کو کیا کہتے ہوں گے، 3 رکنی کمیٹی ہوگی، حکومت کوئی بھی ہو، ذمہ دار وہی ہوں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیے کہ آئی جی اسلام آباد اور انچارج سی ٹی ڈی کو میں الگ سے ڈیل کروں گا، انہوں نے لوگوں کو تحفظ دینا ہے، اگر ان کو بات سمجھ نہیں آرہی تو سمجھا دیں۔
عدالت نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت دی کہ آپ نے عدالتی کارروائی سے ان کو بریف کرنا ہے۔
دریں اثنا عدالت نے نگران وزیراعظم، نگران وزیر دفاع اور نگران وزیر داخلہ کو ایک بار پھر آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسی منتخب وزیراعظم کو ابھی نہیں طلب کررہا کیونکہ وہ آکر پھر سرے سے شروع کریں گے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم سے کہہ دیں کہ آئندہ سماعت پر کراچی مت جائیں، ہائی کورٹ پیش ہوں، نگران وزیراعظم کوئی فل ٹائم وزیراعظم نہیں، ان سے کہیں عدالت آنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
اٹارنی جنرل کو عدالت نے ہدایت دی کہ بطور اٹارنی جنرل آپ تینوں ڈی جیز کو بریف کریں، جو 3 رکنی کمیٹی بنارہا ہوں وہ مستقبل میں بھی جوابدہ ہوں گے۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 28 فروری تک ملتوی کردی۔