بلوچستان کے علاقے مچھ میں گذشتہ دنوں بی ایل اے کے آپریشن درہ بولان میں شہید ہونے والے ودود ساتکزئی کی ہمشیرہ گل زادی بلوچ کو سوشل میڈیا پر ریاستی حمایت یافتہ اکائونٹ سے ٹرول کیا جارہا ہے کہ اس نے اپنے بھائی کو لاپتہ ظاہر کیا لیکن وہ مچھ حملے میں مارے گئے ہیں۔
اس سلسلے میں گل زادی بلوچ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر ریاستی حمایت یافتہ اکائونٹس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی کے واقعے کو لیکر میرے خلاف پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ یہ بات پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ میرے بھائی کو12/8/2021کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا میں نے اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف جدوجہد کی تھی، میرا بھائی 8/2/2022کو ریاستی زندان سے بازیاب ہوگیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد میرے بھائی نےکب،کیوں اور کیسےمسلح جدوجہد کا انتخاب کیا اس کا مجھےکوئی بھی علم نہیں ہے اور وہ اس کا ذاتی فیصلہ تھا۔ البتہ میں پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہوں اور میں سمجتھی ہوں ریاست نے بلوچ نوجوانوں کے لیے بلوچستان میں پر امن سیاسی جدوجہد کے تمام راستےبند کیے ہیں جس کے سبب نوجوان مسلح جدوجہد کے راستہ اپنا رہے ہیں۔
گل زادی بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ شاید ریاست کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور اپنے غلط پالیسوں پر نظر ثانی کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں ان تمام لوگوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میرے خلاف منفی پروپیگنڈوں سے میں اپنے سیاسی جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگی اور نہ ہی میں بلوچ نسل کشی کے خلاف خاموش ہونگی۔
واضع رہے کہ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے درہ بولان آپریشن میںشہید ہونے والے 13 افراد کی مکمل تفصیلات جاری کی ہیں جس میں گل زادی بلوچ کی بھائی ودود ساتکزئی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ شہید فدائی عبدالودود ساتکزئی عرف شیہک کا تعلق مچھ شہر سے تھا۔ آپ کو 2021 میں قابض فوج نے جبری لاپتہ کیا، کئی مہینے ٹارچر سیلوں میں اذیت دینے کے بعد آپ کو رہا کردیا گیا۔ جس کے بعد آپ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک بدتہذیب دشمن پرامن سیاسی زبان کو نہیں سمجھ سکتا اور جنگ ہی بلوچ قوم کو غلامی کی ذلت سے نجات دلا سکتی ہے، جسکے بعد آپ نے ایک سال قبل بی ایل اے – مجید برگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ فدائی ودود ساتکزئی دو دنوں تک ایک اہم جنگی پوزیشن پر مستعد رہے، جہاں دلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے، آپ نے دشمن کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو اس کے بھائی کے حوالے اسی طرح ٹرول کیا جاتا رہا ۔اس کے بھائی کے جبری گمشدگی کے دوران کے تصاویر سوشل میڈیا میں پروپیگنڈے کے طور پرجاری کئے گئے تھے اور الزام لگایا گیا تھا کہ اس کا بھائی لاپتہ نہیں بلکہ کوئٹہ میں ایک ہوٹل میں بیٹھا ہے اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بعد ازاں اس کی وضاحت کی کہ وہ لاپتہ تھے اب نہیں ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بلوچ نسل کشی و جبری گمشدگیوں کیخلاف حالیہ عوامی تحریک کی پذیرائی کے بعد ریاستی پروپینگنڈہ مشینری بلوچ لاپتہ افراد مسئلے کو مکمل طور پر مسخ کرنے کوشش کر رہی ہے ۔ اور لاپتہ افراد لواحقین سمیت بلوچ نسل کشی و لاپتہ افراد تحریک سے جڑے یا انکی حمایت یافتہ افراد کیخلاف مکمل پروگینڈے کا آغاز کرچکا ہے ۔