شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ – قسط۔8

ایڈمن
ایڈمن
26 Min Read

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔8
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر

(آٹھویں قسط)

باب سوم
(سیاسی زندگی کا دوسرا مرحلہ)

پارٹی سیاست۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے
1993 میں اس عظیم الشان کونسل سیشن کے بعد آپ نے قوم کی خدمت جاری رکھتے ہوئے پارٹی سیاست میں قدم رکھا۔ حالانکہ آپ یہ جانتے تھے کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی حقیقی قوم پرست پارٹی موجود ہی نہیں جس کے ذریعے قومی آزادی کی جدوجہد کی جائے لیکن آپ کے اور شہید فدا احمد بلوچ کے بہت سارے دیرینہ ساتھی بلوچستان نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سیاست کررہے تھے۔ان میں سے بہت سارے اب بھی آزادی کی امید پہ ان مفاد پرست عناصر کے ساتھ کام کررہے تھے کہ ممکن ہے کہ کبھی یہ عناصر راہ راست پہ آجائیں۔یہی امید لے کے آپ بھی بلوچستان نیشنل موومنٹ میں شامل ہوگئے جہاں آپ کو بھی یہ امید تھی کہ اگر ان کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ آزادی کے کارواں کو جاری رکھنے کے لیے ان ساتھیوں کو جو کسی زمانے میں آزادی کے مقصد کا پرچار اور اسے حاصل کرنے کو ہی زندگی کا مقصد گردانتے تھے واپس مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کریں۔


یہ وہ دور تھا جہاں پارٹی قائدین جن میں ڈاکٹر حئی، ڈاکٹر مالک اور ان کے ہمنواہ پارٹی کو یرغمال بناکے نظریہ شہیدفدا کے برعکس اسے پاکستانی پارلیمنٹ کی زینت بناچکے تھے جہاں چند مراعات کے عوض وہ قوم اور وطن کا سودا کرنے میں مصروفِ عمل تھے۔ پارٹی سیاست سے ایسا لگتا تھا کہ بلوچستان نیشنل موومنٹ ایک قومی پارٹی کی بجائے سماجی ٹھیکداروں کا کوئی گروہ ہے جہاں وہ فقط سرکاری ٹینڈرز کا انتظار کرتے ہیں۔
ان حالات میں جہاں قوم کے یہ سودا گر ریاستی مفادات کی تکمیل کے لیے ہمہ تن گوش تھے اور مراعات کے لیے قوم اور وطن کو داؤ پہ لگا چکے تھے آپ کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب بن رہے تھے لیکن اس دور میں کوئی اور نہم البدل نہ ہونے کی وجہ سے آپ ان سے ہی جُڑے رہے اور پارٹی کے اندر رہتے ہوئے ان کارکنان کی ذہنی تربیت پہ توجہ دی جو نظریہ قوم پرستی کو ہی بلوچ قومی مسئلے کا حل سمجھتے تھے۔اس لیے نئے کارکنوں کی تربیت اور سماج میں ایسے افراد سے تعلقات استوار کرنے لگے جو بلوچ قوم کی حقیقی آزادی کے متوالے تھے۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ کا ضلعی صدر:۔
بلوچ سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کا چیئرمین ہر دور میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔جس کی وجہ بلوچ قومی حقوق کے لیے ان کی بے لوث قربانیاں جہاں وہ اپنے آپ کو فقط قوم کی امانت ہی تصور کرتے تھے یہ اور بات ہے کہ بعد میں آنے والوں نے اس تنظیم میں عہدہ حاصل کرنے کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے رہے اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن میں خیر جان،مہراب مری،منصور اور بہت سارے دیگر مرکزی عہدیداران لیکن اس کے باوجود عوام کی ایک بڑی اکثریت ان پہ اندھا اعتماد کرتا رہا اور اس کا فائدہ اٹھا کے پارٹی قائدین اور ان عناصر ملی نے بھگت سے عوام کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔آپ کو بھی تنظیم کے اہم عہدے کی وجہ سے ضلع کیچ کا صدر بنایا گیا۔حالانکہ آپ کھل کر ان سے پارٹی نظریہ کے حوالے سے اختلاف رکھتے تھے۔جس کی واضح مثال آپ نے پہلی ہی میٹنگ میں جہاں آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تو آپ (شہید غلام محمد بلوچ)نے نظریہ کامریڈ فدا جان کی پیروی کرتے ہوئے شہید فدا جان کی شہادت کے محرکات پہ بات کی اور اس ضمن میں شہید کے قاتلوں کی نشاندہی اور از بعد انہیں سزا دینے کے حوالے سے پارٹی کو قرارداد ارسال کی۔اس اجلاس میں آپ نے مرکز پہ اس واقع کے حوالے سے جسے پانچ سال کا عرصہ بیت چکا تھا لیکن اس کا کوئی حل نہیں نکالا گیا کھل کر تنقید کی۔جواب میں مالک اور حئی کے غیر منطقی دلائل تھے جو کسی بھی سیاسی کارکن کو اطمینان نہیں دلا سکتے۔


ضلعی صدر منتخب ہونے کے بعد آپ نے بلوچستان نیشنل موومنٹ کو ضلع میں فعال بنانے میں اپنی تمام تر توانائی صرف کی۔ اس دوران ضلع کا ایسا علاقہ باقی نہیں بچا جہاں آپ نے پارٹی کے دورے نہیں کیے۔
ضلعی صدر منتخب ہونا پارٹی سیاست میں آپ کا پہلا قدم تھا لہذا اس دوران آپ نے پارٹی کی پالیسیوں اور ان کے تحت منعقد ہونے والے پروگراموں کا بخوبی مشاہدہ کیا۔اس دوران آپ کے مشاہدے میں جو بات آئی وہ پارٹی کو ریاستی اداروں یعنی پارلیمنٹ کا حصہ بنانے کا آخری فیصلہ تھا جہاں پارٹی کے نام نہاد قائدین نے عوام کو اس بات پہ قائل کرنے کی کوشش تھی کہ قوم اور وطن کا دفاع اور حقوق بغیر ریاستی پارلیمنٹ کے حاصل کرنا ممکن نہیں۔ لہذا ان حالات میں آپ کے لیے کام کرنا آسان نہیں تھا۔ پارٹی میں موجود ان دیو قامت مجسموں کی مخالفت کے باوجود آپ نے بلوچوں کی اس حالت کا ذمہ ریاستی اداروں کو قرار دیا اور کھل کر اس بات کا پرچار کیا کہ بلوچوں کے حقوق کا دفاع غیر پارلیمانی سیاست کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آپ اکثر یہ کہتے تھے کہ اگر ہم تسلسل کے ساتھ پاکستانی اداروں کی فرمانبرداری کرتے رہے تو ممکن ہے کہ ہماری شناخت ہی ختم ہوجائے۔لہذا وقت و حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم اپنی راہوں کا منطقی بنیادوں پہ انتخاب کریں۔
آپ کے ان پروگراموں سے جن میں آپ پارٹی کارکنوں کو غیر پارلیمانی سیاست کی جانب راغب کرنے کی کوششیں کرتے رہے،پارٹی میں موجود نام نہاد قوم پرست رہنماؤں کوگوارہ نہیں گزرا۔ اسی لیے 1994ء میں جب دوبارہ ضلعی الیکشن ہوئے تو انہوں نے آپ کے مقابلے میں منظور بلوچ(شہید فدا احمد کا بھائی) کو لائے۔لہذاآپ منظور بلوچ سے مقابلہ کیے بغیران کے حق میں دستبردار ہوگئے۔

بحیثیت ممبر مرکزی کمیٹی:۔
آپ چونکہ ایک زیرک سیاستدان تھے اور جانتے تھے کہ پارٹی کے پالیسی ساز اداروں میں جانے سے ہی عوام اور کارکنوں کو صحیح سمت دیا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد آپ مرکزی کمیٹی میں جانے کے لیے کارکنوں کا اعتمادحاصل کرنے کے لیے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر آپ1994ء کے پارٹی کونسل سیشن میں مرکزی کمیٹی کے ممبر منتخب ہوئے۔
سیاست اور سیاسی عمل میں جب جماعتیں اجتماعی مفادات اورنظریاتی اصولوں کے خلاف کام کررہے ہوں تو وہاں عظیم ہستیاں کبھی بھی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیتے۔بلکہ انقلابی فیصلوں کی جانب مائل ہوکے قوم کی رہنمائی کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ایسے اعمال سے سماج میں بسنے والوں کی تقدیر داؤ پہ لگ جاتی ہے۔آپ (شہید غلام محمد بلوچ) کا بھی شروع دن سے پارٹی لیڈرشپ اور قوم کے ان ٹھیکداروں کے ساتھ پارٹی مقاصد اور نظریے پہ اختلاف رہا لیکن اس دوران آپ کے پاس مرکزی سطح کی کوئی ذمہ نہیں تھی جہاں آپ اداروں کی توسط سے براہ راست اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔اب جبکہ آپ مرکزی کمیٹی کے رکن تھے تو پارٹی کے پالیسی ساز ادارے میں آپ نے کہیں موقعوں پہ کھل کر پارلیمانی سیاست کی مخالفت اور بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ کے اس نظریے کو جس کی بنیاد پہ پارٹی بنی تھی اسے لاگو کروانا چاہتے تھے۔لیکن پارٹی قائدین جنہیں پارلیمنٹ کی لت لگ گئی تھی ان کی نظریہ فدا جان کی جانب واپسی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بساط سے بڑھ کر انہیں قائل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔


بلوچ اور بلوچستان کی جد وجہد کے لیے آپ نے پارٹی قائدین کی جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے اپنی توجہ کا مرکز بلوچ عوام کو بنایا۔ آپ کو یہ یقین تھا کہ اگر بلوچ عوام کو حقیقی بنیادوں پہ متحرک کیا جائے تو وہ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ہر تکلیف برداشت کرنے کی سکت رکھتی ہے۔تین سال تک آپ پارٹی میں سینٹرل کمیٹی کے ممبر رہے اور ان تین سالوں میں آپ نے بلوچ قوم اور عوام میں اپنا منفرد مقام بنالیا تھا۔عوام جو کہ آزادی کی نوید سنانے والے کی تلاش میں سرگرداں تھی انہیں آپ میں بھی وہ عکس نظرآیا تھا جہاں آپ سے پہلے شہید فدا احمدبلوچ اور بہت سارے دیگر سیاسی رہبروں میں وہ دیکھ چکے تھے۔ لیکن ان میں سے اکثر نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تھے۔ جس سے عوا م میں سیاست کے حوالے سے بڑی حد تک منفی سوچ بھی پائی جاتی تھی۔ آپ نے عوام کی یہ حالت دیکھی تو انہیں متحرک کرنے کے لیے آپ نے عوامی خود اعتمادی کی ضرورت پہ زیادہ توجہ دی اورآپ عوام کااسی نظریے کے تحت تربیت کرنے کو ہی نجات کا ذریعہ خیال کیا کرتے تھے۔آپ کہا کرتے تھے کہ جب تک ہم انحصاریت پسندی کا شکار رہینگے اس وقت تک تبدیلی کی امید بھی ایک خواب رہیگا۔لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات میں اعتماد کے مادے کو فروغ دیں تب جا کے ہم صحیح اور غلط کا موازنہ کرسکتے ہیں۔
َ
بحیثیتِ پارٹی نائب صدر:۔
اپنی انتھک محنت اور جدوجہد کی وجہ سے آپ نے پارٹی کارکنوں کا اعتماد جیت لیا تھا جس کی وجہ سے1997ء کے کونسل سیشن میں آپ شہید پارٹی میں مرکزی جونیئرنائب صدر کے عہدے پہ منتخب ہوئے۔یہ وہ دور تھا جہاں ایک جانب حق توار کے پلیٹ فارم سے نواب صاحب قوم کوآنے والے دنوں کے لیے تیار کررہا تھا۔ نواب صاحب کے اس عمل سے جہدِ آزادی کے لیے قوم کے بہت سارے سپوت جن میں شہید جرنل اسلم بلوچ، شہید آغا محمود جان اورشہید امیر بخش بلوچ(سگار)جیسے لوگ عملی جدوجہد کے لیے بھر پور تیاری کررہے تھے جہاں انہوں نے بعد میں اپنے عمل سے ثابت بھی کیا، اور دوسری جانب پارلیمنٹ پرستوں کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا طبقہ مراعات کی سیاست میں مصروفِ عمل تھا۔پارلیمنٹ پرستوں کی سیاست کے باوجود بھی قوم میں آزادی کی تڑپ بھی بڑھ رہی تھی جس کی سب سے بڑی مثال” مند” میں منعقد ہونے والے جلسے کی ہے جہاں بلوچستان نیشنل موومنٹ کے انہی قائدین کا عوام نے انڈوں اور ٹماٹروں سے استقبال کیا۔ اس دوران بلوچستان نیشنل موومنٹ( نے اس علاقے سے پارلیمنٹ کے لیے اکرم نامی شخص کو منتخب کیا تھا اور غوث بزنجو کا دیرینہ ساتھی جلال خان اس کی کامیابی کے لیے الیکشن مہم چلارہاتھا۔ عوام جو کہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کو رد کرچکی تھی انہوں نے اس کا واضح ثبوت اس جلسے میں دیا۔ انڈوں اور ٹماٹروں کے اس منفرد استقبال کے بعد ان کا ایک ہی نعرہ تھا کہ شہید فدا احمد کا نظریہ بحال کیا جائے جہاں وہ قابض کی پارلیمنٹ کو بلوچ قوم کی موت سے تشبیہ دیتے تھے۔


اس ناکام جلسے کے بعد پارٹی کی میٹنگ جلال خان کے گھر منعقد ہوا جہاں عوامی ردعمل کو حئی اور مالک نے آپ شہید چیئرمین کے نظریاتی اختلافات کی کار ستانی قرار دیا۔اور یہ کہنے لگے کہ عوام کی اس حالت کا جہاں انہیں اندھیر کھویں میں دھکیل نے کا کام ہورہا ہے اس کے ذمہ دار تم ہی ہو۔جہاں آج کے اس جدید دور میں بھی تم انہیں جدید سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کررہے ہو۔یہ وہ دور نہیں کہ ہم پہاڑوں پہ جا کے ایک انتہائی طاقت ور دشمن سے لڑیں کیونکہ مسلح سیاست کا انجام بھی ہم دیکھ چکے ہیں جہاں بلوچ سرداروں نے قوم کو پسماندگی کے سوا کچھ نہیں دیا انہوں نے مزید کہا کہ ہم کب یہ کہتے ہیں کہ ہم آزادی نہیں چاہتے ہم بھی آزادوطن کے لیے جدوجہد کررہے ہیں لیکن ہم یہ آزادی پارلیمانی سیاست کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں نہ کہ کسی اور طریقے کا رکو اختیار کرکے۔
آپ (شہید غلام محمد بلوچ) پہ یہ حقیقت واضح ہورہا تھا کہ یہ افراد آزادی کے نام پہ قوم کو دھوکہ اور فریب کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتے۔ اسی لیے آپ نے عوامی ردِ عمل کوعوامی شعور قرار دیا اور پارٹی لیڈر شپ کو واضح الفاظ میں کہا کہ عوام کی یہ سوچ عوام کی آزادی کی جدوجہد کی علامت ہے اب بھی موقع ہے کہ ہم اپنی راہوں کا صحیح سمت میں تعین کریں نہیں تو پہلے بھٹو دور میں اس وقت کے وزیرِ تعلیم صابر بلوچ اور آج آپ لوگوں کا جس انداز میں عوام نے استقبال کیا اس کے اثرات آنے والے دنوں میں پورے بلوچستان میں پھیل جائیں گے۔ تب اسے روکنے کے لیے آپ لوگوں کے پاس کوئی طریقہ کار نہیں ہوگا۔
جب اس الیکشن میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کو کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو انہوں پہلے آپ کو مراعات کا لالچ دیکر خرید نے کی ایک اور ناکام کوشش کی جس کے بعد اس مراعات یافتہ گروہ نے آپ کے خلاف پارٹی کے اندر ایک محاذ کھول دیا۔لیکن مجال کہ آپ کو اپنے نظریے سے دستبردار کرسکتے،جس کی تعلیم آپ نے بچپن سے لیکر جوانی تک حاصل کی ہو۔عوام کی بلوچ سیاست میں غیر پارلیمانی سوچ کی یہ جھلک جو آپ نے” مند” میں دیکھی اس نے آپ کے حوصلوں کو مزید بلند کیا۔
مراعات اور ایوانوں کا رخ کرنے کے لیے روز نت نئے طریقے اختیار کیے جانے لگے،اب جب کہ یہ مراعاتِ یافتہ طبقہ عوام میں بڑی حد تک اپنااعتماد کھو چکا تھا تو انہوں نے ایک نیا نعرہ” پونم ” کے نام سے بلند کیا۔

پونم کا یہ الائنس 1998ء میں قائم ہوا جس میں اختر مینگل اور ڈاکٹر حئی کے ساتھ محمودخان اچکزئی بھی شامل تھا۔ عجیب بات تھی کل تک بلوچ لیڈربلوچ عوام کو پشتونوں کے خلاف اکساتے تھے اور آج انہی کے ساتھ اتحاد کو ذریعہ نجات خیال کررہے تھے۔ لیکن پونم بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہا بہت جلد جب مفاد پرست عناصر وہ چاہے بلوچ قوم کا استحصال کرنے والے بلوچ لیڈر ہوں یا پشتونوں کو غلامی کی ذلت میں ڈبونے والے پشتون، اپنے مفادات کی تکمیل کے بعد انہوں نے ”پونم” کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور نہ ہی انہیں یہ احساس ہوا کہ اس خطے میں محکومیت کے خاتمے کے لیے اسی پلیٹ فارم کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے خدشات کا پہلے ہی اظہار کیا تھا جہاں انہوں نے کہا تھا کہ” نیپ” کے تجربے کو دیکھتے ہوئے ہمیں دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے لہذا ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی جدوجہد کو آزادی کا ستون قرار دیکر اپنی تمام تر توجہ کا مرکز بلوچ قوم کو بنائیں۔ یہ کچھ عجیب سی بات لگتی ہے جہاں ہم بلوچستان کی آزادی کی بات بھی کرتے ہیں اور دوسری جانب ریاستی اداروں کی حیثیت کو بھی ماننے کو تیار ہیں۔ اب اس سے بڑھکر ہم ان لوگوں کے ساتھ اتحاد کرنے جارہے ہیں جو اپنی قوم کو غلامی کی ذلت کے سوا کچھ دیا ہی نہیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنی قوم کی آزادی کی بات کی ہے وہ تو مضبوط پاکستان کے حامی ہیں جو یقیناً ہماری موت کے مترادف ہوگی۔آج بھی موقع ہے کہ ہم اپنی سیاست کو صحیح سمت دیں۔
جب1998ء میں پونم نے بلوچستان بھر میں احتجاج کااعلان کیا تو آپ شہید واجہ نے بحیثیت بلوچستان نیشنل موومنٹ کے نائب صدر اخباری اسٹیٹمنٹ (بیان) جاری کرتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت کرکے پونم کے اس عمل کی مخالفت کی کہ بلوچستان نیشنل موومنٹ کااس احتجاج سے کوئی تعلق نہیں اوربلوچستان نیشنل موومنٹ کے کارکنان اور بلوچ عوام پونم کی اس ہڑتال کی حمایت نہ کریں۔اس اخباری بیان کے بعد آپ چیئرمین کے خلاف پارٹی سیکر ٹری جنرل کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا۔مگر شوکاز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ اپنے موقف پہ قائم رہے۔ آپ شہید جانتے تھے کہ یہ سازشی کمپنی آپ کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔کیونکہ آپ چیئرمین اپنے عوام اورنوجوانوں میں ایک مخلص اوہردلعزیزرہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
مستونگ واقعہ جہاں میر عبدالخالق لانگو قبائلی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے اس دوران میر عبدلاخالق بلوچستان نیشنل موومنٹ کے سینئر نائب صدر کے عہدے پہ فائز تھے۔ اس واقعے کے بعد آپ شہید غلام محمد بلوچ قائم مقام سینئر نائب صدر کے فرائض انجام دیتے رہے۔
اس دور میں پارٹی کے اندر نظریاتی اختلافات کی ایک لہر چل رہی تھی جہاں پارٹی کے بہت سارے کارکنان پاکستانی اداروں (پارلیمنٹ) میں جانے کی مخالفت کررہے تھے۔ان دوستوں میں اقبال بلوچ اور منظور بلوچ پیش پیش تھے لیکن بعد میں انہوں نے بھی دوسرے پارلیمانی گروہ بلوچستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔اس کے باوجود پارٹی میں کارکنان کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود تھی جو غیر پارلیمانی جدوجہد کو ہی بلوچ قوم کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ان حالات میں آپ (شہید غلام محمد بلوچ) ان دوستوں کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور پارٹی کے اداروں میں اس سوچ کی مکمل وکالت کرتے تھے۔لیکن پارٹی کی اکثریت مراعاتی سیاست کے نشے میں قابض ریاستی سوچ کو دوام بخش رہے تھے۔ مراعات کا بھوت ان پہ اس قدر سوار تھا کہ وہ قومی مفادات پہ ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دیتے تھے۔جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ایک مضبوط اختلافی گروہ (سرکل) وجود میں آچکاتھا جس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہورہا تھا کہ بہت جلد پارٹی دو حصوں میں تقیسم ہوجائیگا۔

2000ء بلوچستان نیشنل موومنٹ کا کونسل سیشن:۔
پارٹی میں آمریت اور ملوکیت کے نظریے سے آپ ہمیشہ اختلاف رکھتے تھے۔ آپ کا یہ کہنا تھا کہ اگر ایک بڑے عرصے تک کسی پارٹی کی رہنمائی ایک ہی فرد کررہا ہو تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے کوئی ایسا پروگرام ہی نہیں دیا جس سے سیاسی ثقافت فروغ پاسکے جہاں کیڈرز یا آنے والے رہنماؤں کا ظہور ہوتا ہے۔ ایک فرد کی اجارہ داری کی وجہ سے پارٹی میں مقابلے کا فقدان بھی ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ سیاست میں آگے آنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس طرزِ سیاست سے جہاں اختیارات کا مالک ایک فرد ہو، قوموں کی تقدیر کبھی نہیں بدلتی۔اور آج ہم عملی طور پر ان حالات کا سامنا بھی کررہے ہیں۔لہذا پارٹی کے بہترمستقبل کے لیے ہمیں روایتی طرزِ سیاست کا خاتمہ کرنا چاہیے نہیں تو عوام کے ساتھ ہمارے کارکنان پہ بھی جمود کی کیفیت طاری ہوگی۔
آپ (شہیدغلام محمد بلوچ) اس آمرانہ نظریے کو قوم کی موت سے تعبیر کرتے تھے اسی لیے آپ نے2000ء میں منعقد ہونے والے کونسل سیشن میں اس بات پہ زور دیا کہ اب ڈاکٹر حئی کی جگہ کسی اور کو پارٹی کی ذمہ داریاں دی جائے۔لیکن اس ضمن میں پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں سے کسی نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔حتیٰ کہ مالک اور مولابخش دشتی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ڈاکٹر حئی کو ذمہ داریاں نہیں دی گئی تو پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوجائیگا کیونکہ وہ کبھی بھی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کو تیار نہیں ہوگا اور اگر ہم ایسا کرینگے تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ ہم سے الگ ہوکر اپنی جماعت بنالے گا۔مگر آپ چیئرمین اپنے موقف پہ قائم رہے اور کہا کہ یہ توحئی کی سیاسی فطرت ہے کہیں بھی پارٹی میں عہدہ یا اقتدار نہ ملنے پر پارٹیوں سے الگ ہوجاتاہے۔ مزید آپ نے کہا کہ ایسا فرد کبھی قومی رہنماء نہیں بن سکتا جو اقتدار کابھوکا ہو اور اس ظلم میں ہم سب شامل ہیں جو ہم قوم پہ کررہے ہیں جہاں ہم قوم کو کوئی ایسا راستہ نہیں دکھا رہے ہیں جس پہ چل کے وہ اپنی منزل پہ پہنچ سکے۔

دوسری شادی:۔
پہلی شریکہ حیات کے انتقال کے بعد آپ نے متحرمہ سلمیٰ بلوچ سے 15 اگست2000ء میں دوسری شادی کرلی۔جن کے بطن سے ایک بیٹا بہاول جان اور بیٹی ماہ جان پیدا ہوئیں۔متحرمہ سلمیٰ بلوچ سعید یوسف کے پارٹی سے کنارہ کشی کے بعد بحیثیت وائس چیئر پرسن کے عہدے پہ فائز رہ چکی ہے۔

جاری ہے۔۔۔

Share This Article
Leave a Comment