سینئر قانون دان ایڈووکیٹ علی احمد کرد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات میں مقتدر طاقتوں کی غلط سوچ اور پالیسیوں کی وجہ سے تیزی سے جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اور اگر آئندہ بھی طاقتور حلقوں کی یہی سوچ رہی تو آنے والے برے دنوں کی پیش گوئی کرناکوئی مشکل کام نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے 75 سال سے جتنا خون بلوچستان میں بہا اور بہایا گیا ہے یہ روز روشن کی طرح صاف دکھائی دے رہا ہے کہ شروع دن سے بلوچوں کی ” نفسیات ” اور سنگین اور سخت حالات میں ان کے سوچنے سمجھنے اور رد عمل میں یہ ” کب اور کیا نہیں کریں گے ” کو عسکری طاقتوں نے کبھی مد نظر نہیں رکھا اور یہی سمجھتے رہے کہ ریاست جیسی بڑی طاقت کے سامنے ان بلوچوں کی کیا حیثیت ہے مگر بلوچوں کی تاریخ اور آج کے حالات نے بڑے بھر پور انداز میں یہ ثابت کیا کہ آج ایک اسٹیبلشمنٹ غلطی پر غلطی کرتی چلی آرہی ہے اور انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ غلطی پہ ڈٹے رہنے کی بجائے غلطی کو تسلیم کرنا ہمیشہ بڑا فائدہ مند رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ساری دنیا بہت غور سے بلوچستان جیسے جغرافیائی اہمیت کے حامل علاقے کے حالات کو دیکھ رہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ اسلام آباد کے انتہائی سرد موسم میں رات کو دو بجے عورتوں بچوں اور بوڑھوں پر ، ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ کر کے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ چلو معاملہ حل ہو گیا۔ مسئلہ عورتوں بچوں اور مسنگ پر سن کے لواحقین کے دھرنے کا نہیں بلکہ خود بلوچستان کا ہے جو مٹھی میں بند ریت کے ذرات کی طرح ہاتھ سے نکلتا۔