بلوچستان ماہر قانون و سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد کا کہنا ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک انٹرویو کے دوران یہ کہنا کہ بلوچستان میں صر ف 50 افراد لاپتہ افراد لاپتہ ہیںانتہائی تعجب خیز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاست کی یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک شخص اتنے بڑے عہدے پر بیٹھ کر بھی سچ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا حالانکہ مسنگ پرسنز کی تعداد کے بارے میں حقیقت کیا ہے ساری دنیا پہ یہ بات عیاں ہے۔
علی احمد کرد نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر صرف 50 افراد کے ہی لاپتہ ہونے کی بات ہوتی تو ماما قدیر اور اس کے ساتھیوں کو دس سال سے مسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے باہر کیمپ لگانے کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور نہ ہی لاپتہ افراد کے لواحقین کو ماما قدیر کی سربراہی میں اسلام آباد تک ننگے پیر مارچ کرنے کی ضرورت پڑتی ۔
علی احمد کرد کا کہنا تھا کہ جھوٹ جتنے بڑے پیمانے پر بولا جائے سچ کا مقابلہ نہیں کرسکتی یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت لاپتہ افراد لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے اس مسئلے کو جتنی جلدی حل کیا جائے اس میں سب کا فائدہ ہے ورنہ یہ تو اپنی جگہ خود ایک بڑی حقیقت ہے کہ کہیں یہ مسئلہ پورے پاکستان کو ہی نہ کھا جائے۔