بلوچی زبان کے عظیم شاعر مبارک قاضی تربت میں انتقال کرگئے۔
مقامی میڈیا کے مطابق وہ تربت میں بابو عالم نامی ایک دوست کے ہاں سنگانی سر میں مہمان تھے جہاں گذشتہ شب رات گئے ان کا انتقال ہوا۔
مبارک قاضی کی میت پسنی روانہ کردی گئی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق مبارک قاضی کی انتقال کی تصدیق بلوچی زبان کے جوان سال شاعر اصغر محرم نے کی ہے ۔
عطاشاد کے بعدمبارک قاضی کے موت کو بلوچی زبان کے ایک عہدکا خاتمہ قرار دیا جارہا ہے ۔
کہا جاراہ ہے کہ مبارک قاضی اپنے انتقال کے حوالے سے پیش گوئی اسی ہفتے میر ساگر کو لکھے گئے ایک ادبی خط میں کی تھی جس میں اپنی ناتوانی کاذکر کرتے ہوئے قاضی مبارک نے لکھا تھا کہ وہ اب بہت کمزور پڑگئے ہیں بلکہ بعض اوقات بستر سے بھی نہیں اٹھ سکتے اور کھانے پینے میں بھی دل نہیں کرتا۔
مبارک قاضی نے ایک قومی شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ ان کی متعددکتابیں ، زرنوشت ، ھانی منی ماتیں وطن ، شاگ ماں سبزیں ساوڑءَ اور دیگرشائع ہوچکی ہیں اور انہیں بلوچی زبان و ادب میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا شاعرکا اعزاز حاصل ہے ۔
مبارک قاضی نے اپنی بے باک شاعری کی وجہ سےنوے کی دہائی میں مچھ جیل اور 2006 میں تربت جیل میں صعوبتیں کاٹیں۔