امریکہ کی نیوز ویب سائٹ دی انٹرسیپٹ نے دعوی کیا ہے کہ اس نے اس سائفر کی کاپی حاصل کر لی ہے جس کا تذکرہ پاکستان کی سیاست میں ڈیڑھ سال سے ہو رہا ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اس مبینہ سائفر کے درست ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق یا تردید سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے ہم ’ پرائیویٹ ڈپلومیٹک ایکسچینجز‘ پر تبصرہ نہیں کرتے۔
‘دی انٹرسیپٹ کے مطابق پاکستانی فوج میں ایک نامعلوم ذریعہ نے یہ دستاویز انہیں فراہم کیا ہے اور ادارے نے اس کا ٹیکسٹ ویب سائٹ پر پوسٹ کر دیا ہے۔
اپریل دو ہزار اکیس میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کو امریکہ کے دباؤ پرہٹایا گیا ہے۔
انٹرسیپٹ نے سائفربتاتے ہوئے جو ٹیکسٹ جاری کیا ہے، اس کے مطابق اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید نے لکھا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری فار ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیا ڈانلڈ لو نے سفیر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ’’امریکہ اور یورپ میں لوگ یوکرین بحران سے متعلق پاکستان کے جارحانہ طور پر نیوٹرل مؤقف پر حیران ہیں۔”
مبینہ سائفر کے مطابق ، پاکستانی سفیر نے لکھا ہے کہ ڈانلڈ لو نے ان سے کہا کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ان کی گفت و شنید کے بعد یہ بات عیاں ہے کہ یہ موقف پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی ہے۔
سفیر کے اس سوال پر کہ کیا امریکہ کا سخت موقف پاکستان کے اقوام متحدہ میں یوکرین سے متعلق قرارداد پر غیر حاضری کی وجہ سے ہے، جس پر اس مبینہ سائفر کے مطابق ڈانلڈ لو نے واضح طور پر کہا کہ نہیں، اس کی وجہ عمران خان کا ماسکو کا دورہ ہے۔
دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ کے مطابق ، ڈانلڈ لو نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہوتا ہے تو واشنگٹن میں سب کچھ معاف کر دیا جائے گا، کیونکہ روس کا دورہ وزیراعظم کے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، دوسری صورت میں میرا خیال ہے کہ آگے بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘
اس خفیہ پیغام میں ملاقات کی تفصیل کے بعد اس وقت کے پاکستانی سفیر نے اپنی مبینہ اسیسمنٹ میں لکھاہے کہ ڈانلڈ لو اس قدر سخت ڈی مارش وائٹ ہاؤس کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتےتھے ۔ سفیر نے لکھا کہ ڈانلڈ لو نے پاکستان میں جاری سیاسی صورت حال پر غیر ضروری تبصرہ کیا جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور اس پر امریکہ کو ایک مناسب ڈی مارش دینا چاہئے۔