والد کی میت سمیت 3 روز تک تماشہ بنائے رکھا گیا، ارباب جویا

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں زمین کے تناع ہر قتل کئے گئے کسان امداد فقیر جویا کی بیٹی ارباب جویانے ریاست سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے نام جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ میں مقتول شہید امداد فقیر کی مظلوم بیٹی ارباب جویا آج اپنی ریاست سمیت انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سبھی خیرخواہوں سے مخاطب ہوں۔

جس طرح پچھلے سات سالوں سے ہمارے گھرانے پر مظالم ڈھائے جاتے رہے۔ آج آپ سبھی ان حالات سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ کہ کس طرح یہاں کی انتظامیہ سے مایوس ہوکر ہم تمام بہن بھائی اور شہید والد صاحب سمیت اسلام آباد کی سڑکوں تک انصاف کے پیچھے سرگرداں پھرے۔

مگر ہمیں بدلے میں ہمیشہ حملوں اور جھوٹی ایف آئی آر کا سامنا رہتا آیا۔ کبھی بھائی زخمی تو کبھی بہن زخمی اور گھر کے مرد بھی باری باری جیلوں و تھانوں کے چکر کاٹتے رہے۔ اور نوبت یہاں تک آپہنچی کے پانچ دن پہلے ایسے ہی ایک حملے میں جو کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ باوجود انتظامیہ کو بذریعہ فون و سوشل میڈیا کے مطلع کرنے کے، ہمارے مظلوم گھرانے کی مدد کرنے کوئی نہیں پہنچا اور ہم سے ہمارے باپ جیسا شفیق رشتہ چھین لیا گیا۔

تب بھی ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہمارے مظلوم شہید باپ کے قاتلوں اور ان کے بااثر سہولت کاروں پر فوری ایف آئی آر درج کی جاتی۔پر افسوس کہ الٹا ہمیں ہمارے باپ کی لاش سمیت اس ظلم پر آواز بلند کرنے کے جرم میں ہمیں ہماری مرضی کی ایف آئی آر کے اندراج کرانے سے روکنے کے لیئے وہی انتظامیہ جو عرصہ سات سال تک ہماری ہر تکلیف اور ہم پر جاری ظلم پر خاموش تماشائی کا کردار نبھاتی رہی۔

وہ ضلعی حدود سے نکل کر ڈویژن بھر کی سطح تک ہمیں یرغمال بنائے نظر آئے۔ ہمیں ہمارے باپ کی لاش سمیت تین روز تک تماشہ بنائے رکھا گیا۔ ہمیں شہر شہر گلی گلی اذیتیں دی گئیں۔ ہماری چادریں چھینی گئیں۔ ہم پر ڈنڈے برسائے گئے۔ ہمارے مظلوم باپ کی میت سمیت قرآن پاک تک پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ ہمارے بھائیوں اور انسان دوستوں کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن ہمیں ایک احتجاج کا حق نہیں مل سکا تاکہ ہم اپنے شہید والد صاحب کی ایف آئی آر درج کرا سکیں۔ اور اب جاکے ہمیں ایف آئی آر اندراج کی اجازت ملی ہے تو ہمیں اب کوئی سکیورٹی نہیں دی جارہی کہ ہم ان کے ساتھ جاکر بے خوف و خطر اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کرا سکیں۔ ہمیں کہا جارہا ہے کہ ہمیں کوئی سیکیورٹی رسک نہیں۔ جب کہ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہم اس وقت ہائی رسک پر ہیں۔

اگر پھر بھی کوئی سمجھتا ہے کہ ہمیں کوئی رسک نہیں تو پھر ہمیں وہ یہ سب کچھ تحریری طور پر لکھ کر دیں جو ہمیں تمام زمہ دار کوئی سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہے۔ تو پھر ہمیں جو بھی نقصان پہنچا اس کی تمام تر زمہ داری کمشنر نصیرآباد، مگسی نوابوں سمیت وزیراعلی بلوچستان پر بھی عائد ہوگی۔

میں اس حوالے سے اپنے تمام بلوچستانیوں اور ملک بھر کے کسانوں سے گذارش کروں گی کہ آپ پھر آگے آئیں اور میرے ساتھ چلیں تاکہ میں اپنے مقتول شہید والد صاحب کی ایف آئی آر بلاخوف و خطر درج کرا سکوں۔ ساتھ چیف چسٹس سپریم کورٹ پاکستان سے بھی اپیل ہے کہ میری کمزور پوزیشن و درپیش حالات و زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے میرا کیس جھل مگسی کورٹ سے کوئٹہ یا پھر کہیں بھی کسی دوسری عدالت منتقل کیا جائے تاکہ میں خود کو محفوظ رکھ کر کیس کو آگے بڑھا سکوں۔

Share This Article
Leave a Comment