بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں گڈز ٹرانسپورٹرز کی جانب سے گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی ہڑتال تاحال جاری ہے، جس کے باعث پاکستان کا تجارتی شعبہ شدید متاثر ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے گزشتہ دو روز سے جاری مذاکرات بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز نے اب تک گاڑیاں سڑکوں پر نہیں لائیں۔
اس احتجاج کے باعث صنعتی اور تجارتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان بھر کے تجارتی و صنعتی چیمبرز نے ہڑتال کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پیداواری نقصانات اور برآمدات متاثر ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
گڈز ٹرانسپورٹ کی تنظیموں نے وفاقی اور پنجاب حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال کی ہے۔
ان تنظیموں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سامنے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ مطالبات پورے ہونے تک ہڑتال جاری رہے گی۔
گڈز ٹرانسپورٹ تنظیموں نے وفاقی حکومت سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں:
گاڑیوں پر وزن لادنے کی حد میں اضافہ۔
کسٹم حکام کی جانب سے گاڑیوں کی ضبطی کا خاتمہ۔
موٹروے پولیس کے جرمانے اور ڈرائیوروں سے مبینہ بدسلوکی بند کی جائے۔
ملک بھر میں ’ناجائز‘ ٹول پلازے ختم کیے جائیں اور ٹول فیس میں اضافے کو واپس لیا جائے۔
نئے ٹرک اسٹینڈز اور پورٹ پر ٹرک پارکنگ کی سہولت فراہم کی جائے۔
گڈز ٹرانسپورٹ تنظیموں نے پنجاب حکومت سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں:
پنجاب موٹر وہیکل ایکٹ 2025 کی ترامیم واپس لی جائیں۔
گاڑیوں پر عائد بھاری جرمانے ختم کیے جائیں۔
ہیوی ٹرانسپورٹ کے لائسنس کے لیے موبائل یونٹ فراہم کیے جائیں۔
بڑے شہروں میں ٹرک اسٹینڈز قائم کیے جائیں۔
فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گندم لے جانے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی بند کی جائے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے پاکستان بھر میں جاری ٹرانسپورٹرز کی وہیل جام ہڑتال اور پنجاب حکومت کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازع پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس ہڑتال کے نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ’بندرگاہوں پر فریٹ فارورڈنگ کا عمل شدید متاثر ہو چکا ہے، جس کے باعث درآمدی سامان بندرگاہوں پر پھنس گیا ہے جبکہ برآمدی آرڈرز کی بروقت ترسیل ناممکن ہو گئی ہے۔‘