فلسفہ شہادت دراصل آزادی ہے،آزادی کے بغیر زندگی روح کے بغیر جسم کی طرح ہے۔آزادی وہ کھلی کھڑکی ہے جس سے انسانی روح اور انسانی وقار کا سورج نکلتا ہے۔آزادی وہ ہے جو ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے،مگر آزادی کے لیے تکالیف اور قربانی دینے سے لوگ کھوسوں دور بھاگتے ہیں۔آج بلوچ قومی جہد آزادی اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اس میں شامل ہر مرد و زن قربانی کے شعوری فلسفے سے سرشار ہے اور اسے پتہ ہے کہ ہمیں آزاد ہونا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ ہم آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم اس پر عمل کرتے ہیں۔
یہی عمل بلوچ قومی آزادی کی جہد کی کامیابی کا ضامن ہے۔سرزمین کے لیے جانوں کا نذرانہ دینے والے سرمچار وہوں یا لیڈر اسی طرح شاری یا سمعیہ،بلوچ قومی جہد میں شامل ہر وطن کے جانثار نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آزادی جب جڑ پکڑنا شروع کرتی ہے تو اسے تناور درخت بنے میں وقت نہیں لگتا۔
جس طر ح بلوچ سرمچاردشمن کے ساتھ سالوں سے محاذ جنگ میں موجود ہیں۔ہزاروں فرزندوں نے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا اور کر رہے ہیں وہیں بلوچ خواتین نے انقلابی تاریخ کے رُخ کو موڈ کے رکھ دیا ہے۔گزشتہ دنوں سمعیہ قلندرانی بلوچ نے کم عمری میں قوم کو اپنی شہادت کا تحفہ عید پر دے کر واضح کر دیا کہ فلسفہ شہادت دراصل آزادی ہے۔
ایسا دشمن جو تمام عالمی و اسلامی روایات کو پامال کر کے بلوچوں کو روندھ رہا ہے مگر انکے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ شاری تاریخ بدل دے گی اور اسی فلسفے کو جاری رکھتے ہوئے سمعیہ بلوچ نے قابض کو واضح پیغام دیا کہ بلوچ اپنی آزادی کے لیے موت کاتعین تو کر چکی ہے مگر شہادت کب اور کیسی ہو یہ بھی اب فیصلہ کرچکی ہے۔
آج ہر بلوچ کو دشمن کے خوف سے نکلنا ہو گا۔اس لیے کہ واحد حقیقی قید خوف ہے اور واحد حقیقی آزادی خوف سے آزادی ہے۔آزادی کے لیے قربانی دینے کے لیے پہلا عمل ہے دماغ کی آزادی۔ جس سے روح کو تسکین ملے گی اور اسکے بعد فیصلہ کرنا آسان ہو گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم کا فخر تب تک بیدار رہتا ہے جب تک کہ وہ اگلی نسل کو بھی عزت نفس اور قربانی کی روایات سکھاتی رہتی ہے اور انھیں اس کے لیے مسلسل متحرک کرتی رہتی ہے۔ کسی قوم کا مستقبل اسی وقت روشن ہوتا ہے جب وہ اپنے ماضی کے تجربات اور ورثے کے فخر سے وابستہ ہو۔
جب تک قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گا اس وقت تک ہماری آزادی پر بیرونی سامراج کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ہماری آج کی جدوجہد سے ہی ہماری کل آنے والی نسل سکھ کا سانس لے پائے گی اور فلاحی ریاست کے قیام کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔
دل سے نکلے گی نہ مر کے بھی وطن کی الفت، میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی۔
٭٭٭