بلوچ جبری گمشدگیاں قوم پرست تنظیموں کی پالیسی فقدان کا نتیجہ

0
218

بلوچستان میں جبری گمشدگیو ںسے پیدا شدہ انسانی بحران انتہائی شدت صورتحال اختیارکرچکا ہے اورپورا بلوچستان اس اذیت کوش صورتحال سے جھوج رہا ہے ۔ ہرایک گھر اس انسانی بحران کا شکار ہے لیکن اس کی تدارک کیلئے نہ قوم پرست پارلیانی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس پالیسی موجود ہے اور نہ ہی آزادی پسند تنظیمیں اس کیلئے سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو آزادی پسند قوم پرست تنظیموں کی پالیسی فقدا ن کی وجہ سے یہ انسانی بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے اوربلوچ بقاکیلئے سوال کھڑی کر رہا ہے ۔
میڈیا میں روزمرہ رپورٹ ہونے والی خبروں کے انوسارروزانہ دو سے تین افراد پاکستانی سیکورٹی فورسزیا ان کے تشکیل کردہ مسلح علاقائی گروہوں کے ہاتھوں سرے عام ،گھروں اور پبلک مقامات سے انتہائی بے خوف و خطر اور ماورائے عدالت جبری گمشدگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔جسکی مجموعی تعداد سالانہ ہزار سے تجاوز کررہا ہے ۔ان لاپتہ افراد کی فیملی اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے تن تنہا سراپا احتجاج ہیں ۔

فورسزہاتھوں ماورائے عدالت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے متاثر ہ خاندانوں کے علاوہ کوئی دوسرا سیاسی وسماجی تنظیم کھڑی نظر نہیں آتی اگر چہ کہ ان لاپتہ افراد میں چند کی وابستگیاں پارلیمانی وغیرپارلیمانی قوم پرست پارٹیوں ،سماجی و فلاحی تنظیموں سے ہے لیکن گمشدگی کے بعد بازیابی کا بوجھ کیول خاندان اور عزیز و اقارب کو ڈھونا پڑتاہے ۔اور اس بیج ضعیف و بوڑھی والدین احتجاجی دھرنوں ، ریلیوں ، پریس کانفرنسز اور کیمپ و جلسوں میں اپنے دکھڑے سناسناکر اور اپنے پیاروں کا انتظار کرتے کرتے اس دارفانی سے کوچ کر جارہے ہیں لیکن ان زیاں ہوتی انسانی جانوں کیلئے سیاسی و سماجی تنظیمیں ایک ٹھو س پالیسی بنانے میں یکسر ناکام نظر آتی ہیں کہ کس طرح دنیاکو اس انسانی بحران سے آگاہ کیا جائے ، اُن ایوانوں تک یہ المیہ پہنچایا جائے اور اس کا خاتمہ کیا جاسکے تاکہ بلوچ کی اس پیڑھی کو بچایا جاسکے جس کی بقاخطرے سے دوچارہے ۔

اب توعالم یہ ہے کہ اس انسانی بحران پر پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی عدم سنجیدگی کی وجہ سے جبری گمشدگی کے واقعات خبر کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے۔ لاپتہ افراد لواحقین کی سرگرم و متحر ک تنظیم وائس فار بلوچ کے مطابق بلوچ لاپتہ افراد کی تعدادلگ بھگ40 سے 50 ہزار ہے جو ایک لمحہ فکریہ رائونڈ فگر ہے۔ وی بی ایم پی گذشتہ ایک دہائی سے ماورائے عدالت جبری گمشدگیوں کیلئے کیمپ لگائے پاکستانی ریاست کیخلاف سراپا احتجاج ہے ۔

خواتین و بچوں کی ایک بڑی تعداد ان احتجاج میں فرنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پارلیمانی و غیرپارلیمانی قوم پرست وآزادی پسند سیاسی تنظیموں کا کردار مکمل طور پر عنقا اور عمل سے ماورانظرآتاہے ۔ دو دہائیوں سے جاری بلوچ تحریک آزادی کے اوائل میں شروع ہونے والا جبری گمشدگیوں کا یہ جنگی جرائم اب مکمل طور پر شدت اختیار کرچکاہے ۔ہزاروں پریوار اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں سے بکھرکر اذیت ناک اور اد موا زندگی جی رہے ہیں ۔بچے بنا والداور بنا ماں کے احتجاجی کیمپس ،پریس کلبز اور سڑکوں پر دھرنوں میں پل رہے ہیں ۔تعلیم ، ذرائع معاش ، عزت نفس کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے ۔

جبری گمشدگیوں کے شکار متعدد افراد کی حراستی قتل ایک اور نوحہ ہے ۔ ہزاروںکی تعداد میں لاپتہ افراد کو عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد سے قتل کرکے ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئی ہیں ۔ اور کئی افراد کو پاکستانی فوج ، ایف سی اورسی ٹی ڈی کی جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انہیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔پورا بلوچستان ان جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک سکتے میں ہے ۔ ایک خوف و ہراس کاماحول ہے ،والدین اپنے بچوں کواسکول بھیجنے سے خوفزدہ ہیں جہاں آئے روز چاہے وہ بلوچستان کے تعلیمی ادارے ہوں یا پاکستان کے کراچی ، اسلام آباد ، لاہور ، ملتان و دیگر علاقے ،سب جگہوں میں بلوچ فرزند خوف میں گٹ گٹ کر جی رہے ہیں ۔
سال2018کے الیکشن کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے چھ نکاتی چارٹر آ ف ڈیمانڈ تیار کیا تھا جس میںبلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی سرفہرست تھی اوراس چارٹرآف ڈیمانڈ پر اتفاق کرنے پرپی ٹی آئی کو حکومت اور عمران خان کووزیر اعظم بنانے کیلئے سپورٹ کیاگیا تھا۔اس سلسلے میں اختر مینگل کاکہنا تھا کہ سال 2018کے الیکشن کے بعد ہم نے حکومت کے ساتھ جتنے معاہدے کیے ان میں اکثریت لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے تھے لیکن طاقتور قوتوں نے لاپتہ افراد کو رہائی سے انکار کیا جس پر حکومت نے بھی ہمیں سرخ جھنڈی دکھادیا۔اسی طرح اخترمینگل نے کہا تھا کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ایکسٹینشن کیلئے 4ووٹ دیکر 100لاپتہ افراد کو رہا کرکے میں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔

بلوچستان وپاکستان میں رواں سال کے آخر یا اگلے سال ہونے والے الیکشن میں بی ین پی مینگل کے انتخابی منشورمیں بلوچ لاپتہ افرادکا مسئلہ سرفہرست ہوگا۔گذشتہ الیکشن کی طرح اس الیکشن میں بھی بی این پی لاپتہ افراد مسئلے پر ووٹ حاصل کرے گا۔اگرچہ غیر پارلیمانی قوم پرست و آزادی پسند تنظیمیں بی این پی کے لاپتہ افراد مسئلے کو کیش کرکے ووٹ لینے کے مخالف ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پاکستانی پارلیمانی سیاسی نظام میں لاپتہ افراد کیس کا ایک توانہ آواز جانے جاتے ہیں۔ لاپتہ افراد لواحقین کابھی دوسری پارلیمانی و آزادی پسندپارٹیوں کے برعکس بی این پی اوراخترمینگل سے زیادہ اعتماد کا ایک رشتہ نظر آتاہے اور اس سے امیدیں گہری دکھتی ہیںجس سے یہ اندازہ لگانا قطعاًمشکل نہیں ہوگا کہ آزادی پسند پارٹیوں سے مایوسی کا ایک عنصر پایا جارہا ہے جس کی وجہ یقینا لاپتہ افراد کے حوالے سے ان کی جانب سے اب تک کسی قسم کی کوئی پالیسی کی عدم تشکیل ہے ۔موثر پالیسی بناکر اس انسانی بحران کو اگرچہ جڑ سے ختم نہیں بھی کیا جاسکتا لیکن اس کی شدت کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے اور متاثرہ خاندانوں کاسمپتی بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جو ابھی تذبذب ومایوسی کا شکار ہیں ۔

بلوچستان کی حقوق و آزادی کی بات کرنے والی پارلیمانی و غیر پارلیمانی قوم پرست پارٹیاں جو بلوچستان میں ہوں یا دیار غیرمیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے مین ایجنڈہ بلوچستان میں جاری انسانی بحران ’’جبری گمشدگی‘‘ کورکھیں اور اس معاملے پر ایک موثر سفارتی پالیسی تشکیل دیں۔دنیابھر کے اعلیٰ حکام سے سفارتی سطح پر مقالمہ کریں ،ثبوت و دستاویزات پیش کریں جس سے عالمی سطح پرپاکستانی فورسز کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے آزادانہ کارروائیوں سے دبائوکا سامناہوگا اور جبری گمشدگیوں کیسز میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستانی فوج کی جنگی جرائم ایکسپوز ہوگا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں شدت اور ریاستی فورسز کی بلاخوف وخطر کارروائیاںدر اصل بلوچستان کی پارلیمانی و غیر پارلیمانی قوم پرست پارٹیوں کی پالیسی میں فقدان کی وجہ سے ہورہا ہے ۔بغیر کسی موثر سفارتی پالیسی کے اس انسانی بحران کو نمٹناممکن نظر نہیں آرہا ہے اسی لئے ضروری ہے کہ بلوچ کی بقا کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس پر ایماندارانہ و ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیں بصورت دیگر یہ بحران مزید سنگین شکل اختیار کرتا جائے گااورپارٹیاں اپنی وقعت کھو دیں گی۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here