بلوچستان میں خودکشی کا بڑھتا رجحان اورآزادی پسند پارٹیوں کا کردار

0
458

کولواہ کے علاقے گیشکور میں گزشتہ مہینے 16 تاریخ کو ایک دلخراش واقعہ پیش آیا وہاں اپنی مددآپ کے تحت ایک سکول چلانے والی ایک نوجوان خاتون ٹیچر مسماۃ نجمہ دلسرد بلوچ نے خودکشی کی چونکہ بلوچستان میں خودکشی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس لیے یہ واقعہ زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپایا۔جوں ہی بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے ”پانک” نے اس واقعے اور اس سے جڑے تفصیلات شائع کیے تو بلوچ قوم میں اس پر تشویش کی لہر توڑ گئی اوربلوچ سوشل میڈیاصارفین نے زوروشورسے اس واقعے کے خلاف آوازاٹھاناشروع کیا جس کا سلسلہ شروع کیاجو ہنوزجاری ہے۔
بلوچستان میں تعلیم کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے،بیشترسکولوں پر پاکستانی فوج نے قبضہ کرکے کیمپ اورچوکیوں میں تبدیل کردیئے ہیں ایسے حالات میں بلوچستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جواپنی مددآپ کے تحت بچوں کو پڑھاتے ہیں،ان میں گیشکورکے نجمہ بی بی بھی شامل تھیں۔خاندانی ذرائع بتاتے ہیں کہ مسماۃ نجمہ دلسرد اپنی مددآپ ایک سکول چلارہی تھیں جہاں اردگرد کے بچوں کومفت تعلیم دی جاتی تھی حالیہ کچھ عرصے سے اُن پر پاکستانی فوج کے لیے کام کرنے والے لیویزفورس سے منسلک اہلکاروں نے دباو? ڈالنا شروع کیا کہ وہ بلوچ جہدکاروں (سرمچاروں)کے خلاف پاکستانی فوج کے لیے مخبری کریلیکن نجمہ نے صاف انکار کردیا مگر فوج کے دباو? پر لیویز اہلکاروں نے نجمہ بلوچ کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم کرنے کے بجائے مزید اضافہ کردیا۔وہ روز انھیں فون کرتے،سکول،گھر میں آکرسنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے۔کئی مہینوں تک بی بی نجمہ بلوچ پرفوج کے کارندوں کے دباو? اوردھمکیوں کا سلسلہ چلتا رہا۔بی بی نجمہ بلوچ نے طے کی تھی کہ وہ بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستانی فوج کے لیے کسی بھی قیمت پرکام نہیں کرے گی لیکن اس کی قیمت اپنی جان کی بازی سے ادا کرنا پڑی۔
جب دھمکیوں کا سلسلہ نہ تھما تو بلآخرسولہ مئی کو بی بی نجمہ بلوچ نے تیزاب پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔غریب اور لاچار والدین اور محلہ داروں نے چپ چاپ نجمہ بلوچ کے بے جان جسم کو گلزمین کے سپرد کردیا۔بلوچستان میں ایسے واقعات اکثر گمنامی کے پاتال میں میں چلی جاتی ہیں لیکن نجمہ بلوچ کے باب میں ایسا نہ ہوا اوربلوچ میڈیا نے اس واقعے کو رپورٹ کردیا اور اس واقعے کی جزیات سامنے آئیں تو مذمت کا سلسلہ شروع ہوا۔اب تک ایک دو آزادی پسند پارٹیوں کو چھوڑ کر باقی سبھی نے اس کی مذمت کی ہے اور سوشل میڈیا پر کمپئین چلارہے ہیں اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ جن جن واقعات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے تو اس کے نتائج بھیانک انداز میں برآمد ہوئے ہیں۔
نجمہ بلوچ کی واقعہ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو قدرتی سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیایہ پہلا واقعہ ہے اس کے جواب کے لیے ہمیں اعدادوشمارکاجائزہ لیناپڑے گا۔صرف اس سال جنوری سے اب تک بلوچستان میں دو درجن سے زائد افراد نے خودکشی کی ہے، ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں خودکشی کے واقعات شاذونادرہی پیش آئے ہیں لیکن حالیہ سالوں میں خودکشی کے رجحان انتہائی تشویشناک ہے جس پر ذمہ دار بلوچ حلقے یقینا ًسوچ وبچار کررہے ہوں گے،ہم یہاں اسباب و نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
اس بات پر کوئی شک نہیں کہ بلوچستان گزشتہ سترسالوں سے براہ راست فوج کے کنٹرول میں ہے لیکن جب سے بلوچ قومی تحریک کی حالیہ شروع ہوئی ہے تو پاکستانی فوج نے عملی طورپر بلوچستان کے باگ ڈور سنبھال لیے ہیں۔یہاں شعبہ ہائے زندگی پر پاکستانی فوج کا براہ راست کنٹرول

ہے۔ برائے نام ایک صوبائی حکومت ہے جس کا م محض فوج کے حکم کی تابع داری اور تعمیل ہے،بلوچستان کے کھونے کھونے میں فوج پھیل چکاہے،شہری علاقے تو اپنی جگہ دیہی اور پہاڑی علاقوں میں ہر پانچ کلومیٹر پر ریگولر آرمی کے کیمپ اورچوکیاں قائم ہیں،فوجی آپریشن روز کا معمول بن چکا ہے۔بلوچ عوام کی روزمرہ زندگی نہ صرف شدید متاثر ہوئی ہے بلکہ اب ان کی زندگیوں کا دارومدار فوج کی رحم وکرم ہے۔
کیمپ اورچوکیوں کا پھیلاہوا جال،روزانہ کی بنیادپر جاری آپریشن،شدیدنگرانی،جابہ جاتذلیل آمیزتلاشی،تشدد،گرفتاریاں،جبری گمشدگیاں،قتل عام اب بلوچ عوام کی زندگی کا جزولاینفک حصے بن چکے ہیں۔ان مظالم سے عوامی زندگی تہہ و بالا ہوچکی ہے،ہر دوسرے،تیسرے خاندان کاایک فرد جبری گمشدگی کا شکار ہے یا فوج کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے،بلوچ خواتین کی بڑی تعداد گزشتہ پندرہ سالوں سے سڑکوں،چوک چوراہوں اور پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے نوحہ کنان ہیں جن کی شنوائی کے لیے کوئی اقدام اٹھتا نظر نہیں آتا۔فوجی جبر اور تشدد سے تنگ آکر بلوچ کی ایک تعداد جلاوطنی پر مجبور ہوچکے ہیں جن کی بڑی تعداد ایرانی بندوبستی بلوچستان اورافغانستان میں مقیم ہیں جہاں انتہائی بدترزندگی گزاررہے ہیں،ایک بڑی تعداد خلیج اور یورپی ممالک کا رخ اختیار کرچکے ہیں۔ان واقعات نے بلوچ سماج میں شدید نفسیاتی مسائل جنم دیے ہیں۔
ان حالات و واقعات سے پیدا شدہ نفسیاتی مسائل اب وقت کے ساتھ ساتھ سماج کے تمام پرتوں میں سرایت کرتے جارہے ہیں اورخواتین بھی متاثر بھی ہورہے ہیں،ان خودکشیوں کے تانے بانے براہ راست فوجی جبراورتشددسے جاملتے ہیں۔صرف بی بی نجمہ بلوچ کا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جہاں فوج نے لوگوں کو مخبری کے لیے مجبورکیا تو اور راہ نہ پاکر انہوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا،کئی ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوچکے ہیں کہ فوجی ٹارچرسیل سے رہائی کے بعد بھی لوگوں نے خودکشی کی ہے کیونکہ شدیدٹارچر سے پیدا نفسیاتی اورجسمانی مسائل ناقابل برداشت بن چکے ہوتے ہیں جن کا سدباب لوگ اپنی زندگی کے خاتمے کی صورت میں کرتے ہیں۔
بلوچستان میں عام حالات میں بھی شرح تعلیم کم تھی،جنگی حالات اور سرکارکی عدم دلچسپی،تعلیمی اداروں پر فوجی قبضے جیسے مسائل نے بلوچ قوم پر تعلیم کے دروازے ہی بند کردیئے ہیں چونکہ شرح تعلیم کی تشویشناک حدتک کم ہے،علاج ومعالجے کی اسباب وذرائع ناپیدا ہیں،بلوچ عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہے۔ ایسے میں نفسیاتی مسائل،سدباب اورعلاج کے بارے آگاہی نہ ہونے کے برابرہے چونکہ بلوچستان میں جنگ کے منطقی انجام سے پہلے حالات میں سدھارکے امکانات نظرنہیں آتاہے،آثاروقرائن بتارہے ہیں کہ جنگ،جنگ سے پیدا شدہ مسائل اوربالخصوص نفسیاتی مسائل بھی اب بلوچ عوامی زندگی کا حصہ ہی بنے رہیں گے اس لیے بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کا فریضہ ہے کہ بلوچ عوام میں نفسیاتی الجھن کے بارے میں وسیع پیمانے پر آگاہی مہم چلائیں تاکہ لوگ اپنی زندگیوں کاخاتمہ کرنے کے بجائے ان کا سدباب کریں اوراپنی زندگی جی لیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here