بلوچستان کے ضلع جھل مگسی تحصیل میر پور، موضع کرمانی کے رہائشی ارباب امداد جویو نے کوئٹہ پریس کلب میں دیگر خواتین کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خالد مگسی اور ان کے بیٹوں نے زمین پر قبضے کیلئے ہمارے گھر پر حملہ کرکے فائرنگ کی جس سے میری بہن موت و زندگی کی کشمکش میں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ زمین پر قبضے کیلئے خالد مگسی اور اس کے بیٹوں نے ہم پر زندگی تنگ کردی ہے ۔ پہلے پہلے میرے والڈ کو جھوٹےکیس میں جیل بھیج دیا گیا ۔پھر میری گیارہ سال بہن کو اغواکرکے ایک سال تک اپنے پاس رکھا۔اور بعد ازاں بھائیوں کو اغوا کیا۔
ارباب امداد جویو نے پریس کانفرنس سے خطا کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں جب میرے والد کو پتہ چلا کہ ہماری زمین پر قبضہ مافیا قبضہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں تو میرے والد اپنی زمین پر گئے جہاں خالد خان مگسی کے بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے والد نے ان سے درخواست کی کہ میں ایک غریب بندہ ہوں یہ زمین میری ہے لہذا آپ اس زمین کو چھوڑ دیں اور اپنے بندوں کو یہاں سے لے جائیں۔ لیکن ان ظالموں نے میرے والد کی درخواست کو ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ تم ایک معمولی کسان تمہاری کیا حیثیت تم یہاں بیٹھو گے۔ اور ہمارے مقابلے میں اوگے۔اس کے بعد انہوں نے اپنے بندوں کو اشتعال دلایا کہ اس زمین کو خالی کرانے کے لئے اس بندے کو اس کے بچوں سمیت اٹھاؤ اور جان سے مار دو۔
انہوں نے کہا کہ حالانکہ اس وقت اسسٹنٹ کمشنر نے زمین کا قبضہ میرے والد کو دلوانے میں کردار تو ادا کیا ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمین میرے والد کے نام پہ ہے مگر قبضہ مافیا کو ہماری زمین سے نہیں نکال سکے۔ ہمیں تحصیل دار کی جانب سے اپنی زمین پر 30 نومبر 2017 میں کیمپ لگانے کی اجازت دی گئی کیونکہ زمین میرے والد کے نام پر ہے۔ مگر اس پورے عرصے میں میرے والد پر تین جان لیوا حملے کئے گئے جس میں میرے والد کو شدید زخمی کیا گیا اور تیسرے حملے میں تو ان کو اتنا زخمی کیا گیا کہ ہم سمجھے کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے والد کو فرسٹ ایڈ کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا۔
ارباب جویو کا کہنا تھا کہ اس ظالمانہ حملوں کے بعد پھر میری بہن خیر النساء جس کی عمر 11 سال تھی کو اغوا کر کے لے گئے جسے تقریبا ایک سال تک ان اغوا کاروں نے اپنے پاس رکھا۔ اس حوالے سے جب میرے والد نے ایف آئی آر درج کروانی چاہی تو کوئی ان کی ایف آئی آر درج کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ میرے والد نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انصاف کے لئے ہر دروازے پر دستک دی مگر کہیں بھی ہماری بات نہیں سنی گئی۔ 2019 میں دارالامان سے برآمد کی گئی ۔ میرے والد پر قتل کا جھوٹا الزام لگایا گیا تاکہ اسے کمزور کیا جائے اور اسے زمین چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جائے۔ حالانکہ جس قتل کا میرے والد پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اس وقت میرے والد سندھ کے علاقے شہداد کوٹ میں موجود تھے۔ اس کے بعد اس قتل کی ایف آئی آر میں میرے والد کا نام آنا سراسر جھوٹ اور ہماری زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد امداد جویو کو جب اس جھوٹے کیس میں جیل بھیج دیا تو میں اپنی فیملی کے ساتھ 2021 میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر چار مہینوں تک احتجاج کرتی رہی۔ احتجاج ختم کرنے کے چند دنوں بعد میرے والد جیل سے تو چھوٹ گئے لیکن کیس چلتا رہا۔ اس کے بعد بھی میرے والد پر لگاتار جان لیوا حملے کئے گئے اور میرے دو بھائیوں کو اغوا کر کے لے گئے اور میرے بھائی خان محمد اور غلام رسول کو شدید زخمی کیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ہمارے والد کو دھمکایا کہ اگر آپ زمین چھوڑ کر نہیں جاتے تو ہم آپ کے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن میرے والد اپنی آواز اٹھاتے رہے اور جب ہمارے بھائیوں کو رہا کیا گیا تو پھر سے ان پر حملے کئے گئے۔
ارباب جویونے مزید کہا کہ آج ایک مہینے سے میرے والد جیل میں ہے۔ اور ان کی غیر موجودگی میں کل چار بجے ہمارے گھر پر بندوق بردار افراد نے حملہ کیا جس میں میری بہن خیرالنساء زخمی ہوگئ جسے انہوں نے پہلے اغوا کیا تھا۔ آج وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ انہوں نے سیدھی گولیاں چلائی جس میں کسی کی بھی جان جا سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خالد خان مگسی، ان کے بیٹے سیف اللہ مگسی، احمد خان مگسی اور سالار مگسی نے ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد ہم نے انتظامیہ کو کال کرنے کی کوشش کی مگر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے ہمیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔
ارباب جویو کا کہنا تھا کہ میری بہن یا میرے خاندان کے کسی بھی فرد کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو ذمہ دار ضلعی انتظامیہ اور خالد خان مگسی ہونگے۔