پاکستان میں آزادی صحافت فوج کے دبائو میں ہے،رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس یعنی آزادی صحافت کی فہرست برائے سال 2020 جاری کردی جس کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے مزید 3 درجے تنزلی کے ساتھ 145 نمبر پر پہنچ گیا ہے۔

فہرست میں سب سے پہلا نمبر مسلسل چوتھے سال ناروے کے پاس ہے جس کے بعد دیگر اسکینڈینیوین ممالک آتے ہیں جبکہ فہرست کے سب سے نچلے درجے پر شمالی کوریا براجمان ہے اور اس سال چین کا نمبر 177واں ہے۔

خطے کے دیگر ممالک جن کے درجے میں تنزلی ہوئی ان میں بھارت جس کی رینکنگ گزشتہ برس کے 140 سے کم ہو کر 142، ایران جس کی پوزیشن 173 اور افغانستان 122ویں درجے پر آگیا ہے۔

آر ایس ایف کے مطابق پاکستان میں میڈیا اداروں کو اشتہارات واپس لینے کی دھمکی سے ڈرایا جاتا ہے اور جو ٹی وی چیننلز اپوزیشن نمائندوں کو نشریات کا وقت دیتے ہیں ان کے سگنلز روک دیے جاتے ہیں۔

آر ایس ایف کا کہنا تھا کہ اسی طرح جو صحافی فوج کی حدود سمجھے جانے والے معاملات میں داخل ہونے کی جرات کرتے ہیں انہیں ہراسانی کی مہم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آر ایس ایف نے مزید کہا کہ روایتی میڈیا پر راج کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنے ناپسندیدہ مواد کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے صاف کرنے لگی ہے، اس حد تک کہ حکومت آن لائن ’قواعد‘ نافذ کرنا چاہتی ہے جس کا واضح مطلب سینسر شپ ہے۔

دوسری جانب صحافیوں کو فیلڈ میں بدستور خطرات کا سامنا ہے بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جہاں رپورٹرز سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ 2019 میں اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے 4 صحافی قتل ہوئے جبکہ ایک صحافی کو 2020 میں قتل کیا گیا اور تقریباً ایک دہائی سے یہ صورتحال ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے جرائم کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

آر ایس ایف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا جو کہ روایتی طور پر ایک طویل عرصے تک بہت زندہ دل تھا اب ملک کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا ترجیحی ہدف بن چکا ہے۔

رپورٹ میں آر ایس ایف نے مزید کہا کہ ’جولائی 2018 میں جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے اثر رسوخ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، اور بے باک سینسر شپ کے بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں فوج نے دباو¿ کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، اخبارات بالخصوص روزنامہ ڈان کی ترسیل میں مداخلت کی گئی‘۔

Share This Article
Leave a Comment