پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کااحتجاجی کیمپ جاری ہے جسے 4939 ہوگئے ہیں۔
کیمپ میں پھلین بلوچ سمیت متعدد مرد خواتین نے کیمپ میں آ کر اظہار یکجہتی کی۔
جبکہ کراچی سے جبری لاپتہ عبدالحمید زھری کی بیوی باجی فاطمہ اور بیٹی سعیدہ حمید بھی احتجاجی کیمپ میں بیٹھے رہے۔
اس موقع پر لاپتہ عبدالحمید زھری کی بیٹی سعیدہ حمید نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسکے والد کی جبری گمشدگی کو بائیس مہینے مکمل ہو گئے ہیں لیکن اب تک اسکی کوئی خیر خبر ہمیں موصول نہیں ہوئی ہے، ہم اپیل کرتے ہیں کہ خدارا ہمارے والد کو جلد منظر عام پر لایا جائے۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ خواتین ہمارے معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور تحریکوں میں ان کا کردار اہم ہوتا ہے ہمیں ان کے کردار کو پر امن جدوجہد کے لئے استعمال کرنا چاہیے آج ہمارے مرد اگر تحریک کا ایک بازو ہیں تو دوسرا بازو خواتین ہیں ایسے سخت حالات میں بلوچ خواتین مختلف طریقوں سے پر امن جدوجہد میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں و بھائیوں کے ہمراہ جدوجہد کو آگے لے جائیں بلوچستان میں ایسے حالات میں خواتین کی زیادہ ذمہداری بنتی ہے کہ وہ پیاروں کی بازیابی کے لئے سیاسی عمل کو آگے لے جائیں دنیا آج سیاسی عمل کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ہم سیاسی میدان میں پر امن جدوجہد کو مضبوط کر کے دنیا پر یہ واضح کر دیں بلوچ خواتین کو گھروں میں قید نہیں رکھتے بلکہ ہماری خواتین پر امن جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی جدوجہد کر رہی ہے، بلوچستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ عام بلوچ کی ملکیت ہے اور ان بلوچ چرواہوں اور مزدوروں کی ملکیت ہے جنہوں نے اس کے لئے خون بہایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ریاست بلوچستان نام نہاد قوم پرست حکومت تشکیل دینے کا شوشہ چھوڑنے والے بلوچ قوم پر ظلم بربریت، کی تاریخ رقم کرتے ہوئے دشمن کی صفوں میں اہم کارندوں کا کردار ادا کر رہے ہیں قابض ریاستی مراعات یافتہ قوم پرستوں کو بھی اپنے ڈاتی عارضی مفادات مراعات کی فکر دامن گیر ہو چکی ہے کیونکہ استحصالی نظام کے سائے تلے پرورش پانے والے استحصال سے پاک سماج میں بلوچ کا خون چوسنے کے مواقع کے فقدان کو بھانپ رہے ہیں اسی لئے ریاست کے پیداکردہ سیاست اپنی ذاتی گروہی مفادات کی بقاء کے لئے کوشاں ہو کر قومی جرم کو انجام دیکر قوم دشمنی کی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔